میاں شہباز شریف کی سیاست اورموجودہ تقاضے.... قسط (2)

پھر کچھ عرصے بعد میاںنوازشریف کو راولپنڈی ایئرپورٹ سے جبری واپس بھجوا دیا گیا۔ اس دوران این آر او کے معاہدے کے تحت شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی 18اکتوبر کو وطن واپسی ممکن ہوئی تو تھوڑے عرصے بعد شریف فیملی کو بھی وطن واپس آنے کا موقع مل گیا جبکہ اس دوران میاں محمد شریف رحلت فرما چکے تھے جن کے جسدخاکی کو وطن بھجوایا گیا تو دونوں بھائی اور خاندان کے دیگر جلاوطن افراد ساتھ نہ آ سکے تھے۔ الیکشن 2008ءکی مہم کے دوران جب میاں نوازشریف نے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تو محترمہ بے نظیر بھٹوشہید نے میاں صاحب کو ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد دوسری دفعہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی دوسری دفعہ شریف خاندان کو الیکشن کے بائیکاٹ سے روکا۔ میاں محمد نوازشریف اپنی حلیم طبیعت جبکہ میاں شہباز شریف نے اپنی بردباری اور دانش سے الیکشن کو خصوصاً پنجاب میں اپنی مرضی کے مطابق بدلنے میں کامیاب ہوئے اور دوسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر منوایا۔ الیکشن میں مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی کے ساتھ میثاق جمہوریت کے بندھن میں بندھی ہوئی تھی اور کولیشن پارٹنر بن کر مرکز میں وزارتیں حاصل کیں اور پنجاب میں پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر کولیشن حکومت بنائی۔ مسلم لیگ ن نے پہلے تین ماہ سردار دوست محمد کھوسہ کو وزارت اعلیٰ کے مسند پر بٹھایا۔ بعدازاں عدالتوں سے کلیئرنس کے بعد دوسری دفعہ میاں شہبازشریف وزیراعلیٰ کے مسند پر فائز ہوئے جبکہ اس دوران مرکز میں مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی سے اپنی راہیں جدا کر چکی تھی اور پنجاب میں بحالت مجبوری کولیشن پارٹنر بنے رہنے پر مجبور تھی۔ اس دوران گورنر راج اور پھر اعلیٰ ججز کی بحالی ممکن ہوئی تو میاں شہبازشریف تیسری دفعہ وزیراعلیٰ بن گئے لیکن د ونوں بڑی سیاسی جماعتیں ماضی کی تلخیوں کو فراموش نہ کر سکیں۔ یہاں اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ میاں شہبازشریف اور میاں نوازشریف نے اس دفعہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اعلان جہاد کر دیا ہے اس کے باوجود کہ ان پر رات کے اندھیرے میں چوہدری نثار کے ساتھ جرنیلوں کو ملنے کی خبریں بھی گشت کرتی رہیں اور اس حقیقت سے بھی فرار ممکن نہیںکہ مسلم لیگ ن میں ایک طبقہ پیپلزپارٹی کے ساتھ صلح کا حامی نہیں بلکہ مسلم لیگ ق کے ساتھ تو ہاتھ ملانے کو بھی حرام سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسائل اوربحرانوں میں جب گندم ،کھاد، چاول، چینی، زرعی ادویات ناپید ہیں، بجلی ،پانی، گیس نہ ہونے کے برابر ہے ۔ میاں شہباز شریف کو ترقیاتی کام رکوا کر سستی روٹی جیسے غیرمقبول فیصلے کرنے پڑے۔ دہشت گردی کی وجہ سے صوبہ میں لاءاینڈآرڈر کے بھی مسائل ہیں۔میاں محمد نوازشریف خرابی صحت کی وجہ سے لندن مقیم ہیں جن کے متعلق خبریں سن کر مسلم لیگ ن کے کارکنوں میں سراسیمگی اور پریشانی پائی جاتی ہے۔ پنجاب میں طاقت کا توازن بھی 97ءجیسا نہیں۔ پیپلزپارٹی کو حکومت سے الگ کر دیا گیا ہے ۔ یوں چوہدری نثار مرکز میں اور رانا ثناءاللہ صوبے میں اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔ میاں شہبازشریف وزارت اعلیٰ کے علاوہ 20سے زائد وزارتوں پر اکیلے ”چومکھی“ لڑائی لڑ رہے ہیں۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی بجٹ سے پہلے ق لیگ سے ”جپھی“ ڈالنے پر آمادہ نظر آتی ہے۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف مسلم لیگ ن سے ہاتھ ملانے کو آمادہ نظر نہیں آتیں جبکہ میاں شہباز شریف اپنے اتحادی ق لیگ کے فارورڈ بلاک کو بھی ابھی تک خوش نہیں کر سکے اور ایک سیاسی طالب علم ہونے کے ناطے میں اور دیگر لوگ یہ سمجھنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں ان سب حالات میں مسلم لیگ ن کو تنہا تو نہیں کیا جا رہا ؟اب بہت سے فیصلے میاں شہبازشریف کو اکیلے ہی کرنا ہوں گے اور اپنے اطراف ”ہارڈ لائنر“ کے حصار کو توڑنا ہوگااور موجودہ تقاضوں کی سیاست کرنا ہو گی۔ سیاست میں کوئی بھی چیز کسی وقت رونما ہو سکتی ہے۔ عدم برداشت اور تلخیوں کی سیاست کو فراموش کرکے اٹھارہ کروڑ عوام کو ریلیف دینے کی سیاست کا آغاز کرنا ہوگا تمام مسلم لیگی گروپس کا اتحاد اگر ہو تا ہوا ممکن نظر آئے تو تمام مسلم لیگی گروپس آپس میں کسی ایسی معتبر شخصیت کو اپنا لیڈر چن لیں جو سب کےے لیے قابل قبول ہو۔محترم مجید نظامی صاحب سے اس سلسلہ میں مشاورت کی جا سکتی ہے جن کا ماضی اور حال اس بات کی ضمانت ہے کہ آج بھی عمر کے اس حصے میں بھی وہ پاکستان اور مسلم لیگ کے لیے کچھ کرنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ یقینا اس وطن عزیز کو پیپلزپارٹی کے ساتھ مسلم لیگ کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے کہ یہ دونوں پارٹیاں وفاق کی علامت ہیں اور موجودہ حالات میں دو قومی سیاسی پارٹیوں میں اتفاق رائے ہونا اچھا شگون ہوگا۔(ختم شد)

ای پیپر دی نیشن