سونامی سے لوگوں کی امیدیںسستی روٹی اور پیلی ٹیکسی سے بھی زیادہ ہو گئیں بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ عمران خان نے نہ صرف لوگوں کو بڑی بڑی امیدیں دلا کر انہیں ایک دوسری دنیا میں پہنچا دیا ہے بلکہ نعرے مارتے مارتے وہ خود بھی ایک ایسی اندھی بہری دنیا میں داخل ہوگیا جہاں اسے خود بھی پتا نہیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے ۔ عمران خان جس الیکشن کے ذریعے انقلاب اور یوم ِ نجات جیسے نعرے لگا رہا ہے ان کی اصلیت پر آپ لوگ غور تو کریں۔الیکشن کمیشن کی سکروٹنی پر تین منٹ کی خامشی طاری کر کے ماتم تو کریں۔ جس نے اتنا وقت اور پیسہ ضائع کرنے کے بعد اس© ا"نقلابی الیکشن "کی گود میں چھوڑا کیا ہے؟ ۔ ۸ ارب کے فراڈ والے الیکشن لڑ رہے ہیں اور 8سو کے نادہندہ جگ ہنسائی بن رہے ہیں ۔کیا چھاننا تھا انہیں، کیا چھانا انہوں نے ؟لوگوں کو روز ایک نیا لطیفہ اور ملک کا ایک نیا تماشا ۔سکول ماسٹر کی ٹانگیں توڑنے والے کو بھی ٹکٹ مل گئی ، کروڑوں کی بجلی ہڑپ کرنے والے راجہ صاحب بھی تخت پر براجمان ہوگئے اور استانی کا منہ تھپڑانے والی ملکانی بھی پورے نظام کے منہ پر تھپڑ مار کر آپ کے سامنے سینہ تانے الیکشن میں حصہ لے رہی ہے ۔کر لو جو کرنا ہے ۔مستند سمگلر عباسی بھی ہے اور اربوں کے مقروض اور عربوں کے یار پاکستان کے الیکشن میں حصہ لینے والی سب سے مضبوط پارٹی۔۔۔شیخ رشید جیسا ہر وقت پارٹی تبدیل کرنے والا آج ملک میں تبدیلی کے لئے تبدیلی کی جماعت کے ساتھ کھڑا ہو تو یہ تبدیلی نئی نہ ہوگی ۔۔یہ ہیں آپ کے انقلابی الیکشن کا آغاز ۔۔۔
ہم نے اس شہر دین و دولت میں
مسخروں کو جناب ہی لکھا
الیکشن کمیشن تو اسی جیوے پاکستان کا ایک حصہ ہے جسے ہم برسوں سے سہتے آئے ہیں ۔کیا کہوں میں اس عمران خان کو جو اس نظام میں انقلاب برپا کرنے کا دعوی ہزار مرتبہ کر چکے ہیں اور لاکھوں لوگوں کی امید تھے / ہیں۔شیخوپورہ ، گوجرانولہ ، لاہور ، جہلم ابھی ان ہی کی بات کرتے ہیں انصاف کی تحریک نے وہاں ان لوگوں کو ٹکٹیں دیں جو شائد تبدیلی کے ہجوں اور مفہوم سے بھی ناآشنا ہیں ۔عمران خان کو خدا نے ایک خاص قسم کی معصومیت سے نواز رکھا ہے ، جو پاکستان کی سیاست سمجھنے میں اس کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ عمران خان کی سادگی کا یہ عالم ہے کہ وہ نہ صرف نعرہ مار کر لوگوں کو اپنے پیچھے لگانا جانتا ہے بلکہ جب لوگ اس کے نعرے پر یقین کر کے جوش اور جذبے سے اس کے ساتھ چلتے ہیں تو وہ اس جوش و جذبے کو کامیابی سمجھنے لگ جاتا ہے ۔ اگر تو عمران خان کادو پارٹیوں کے نظام والے ملک میں تیسری بڑی پارٹی بننا اس کا ٹارگٹ تھا تو وہ حاصل ہوگیا ، سست اور بور عوام کو جلسے جلسوں میںمیوزک سنوانا اور تحریک دینا ہو تو حاصل ہوگیا ۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کے پیسے اور جذبات پاکستان لانا ہو تو وہ مکمل ہوگیا مگر پاکستان میں تبدیلی کی بات آپ اس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک آپ کی اپنی پارٹی سے وہ "لوٹے ,فیوڈلز ، مفاد پرست ، موقع پرست ، جاگیردار ، اشرفیہ "نہیں نکل جاتے جودوسروں کی پارٹی میں ہوں تو آپ کی ہر تقریر میں زیرِ عتاب آتے ہیں اور آپ کی پارٹی میں آجائیں تو آپ بضد رہتے ہیں کہ انہیں آپ ہی کی طرح کا ایماندار اور مخلص تصور کیا جائے ۔آپ کے ساتھ شامل ابتدائی لوگوں کے اس قافلے میں میں بھی شامل تھی اپنی آنکھوں سے شروع سے ہی ان کا حشر دیکھ لیا تھا ۔عوام نے اگر انہی کے ہاتھوں دوبارہ لٹنا ہے تبدیلی کے نام پر تو ہر گز نہ ُلٹیں ۔جب چند سال پہلے سیف اللہ نیازی سے میں نے لاہور فون پر پوچھا جناب جن لوگوں نے پارٹی شروع کی تھی انہیں آپ نے نظر انداز کر کے عہدے کسی اور کو بانٹ دیئے ہیں تو نیازی صاحب نے کمالِ لاپرواہی سے کہا تھا۔۔ بیرون ِ ملک پاکستانیوں سے ہمیں صرف فنڈز چاہیئں جو زیادہ بھیج دے ۔ اس دن میرے منہ سے آہ بھی نہ نکلی اور میں خاموشی سے اس پارٹی سے نکل گئی جس کی ویب سائٹ پر میرا کالم حقیقی تبدیلی چاہنے والے پڑھے لکھے نوجوانوں نے اس caption کے ساتھ لگایا تھا کہ شکر ہے کسی کالم نگار کو عمران خان کی حمایت میں لکھنے کا خیال بھی آیااور صاحب یہ لاہور کے اکتوبر والے جلسے سے بہت پہلے کی بات ہے۔ اب الیکشن میں پارٹی ٹکٹیں تقسیم کرتے ہوئے دیکھا یہ گیا ہے کہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے سوچا گیا کردار اندورن ِ ملک پاکستانیوں پر بھی لاگو ہو رہا ہے ۔انقلاب کے نعرے کی خوارک بننے سے پہلے حقیقت کی دنیا میں واپس آجائیں۔آپ کا نام وہ اشر فیہ ،مافیا بیچ کر کھا جائیں گے جن کے خلاف آپ نے لوگوں کو متحرک کیا تھا ۔عوام کو نئے ، ایماندار چہروں کو ضرور آزمانا چاہیں چاہے وہ کسی بھی پارٹی کے ہوں ۔اب عوام کو خود ہی الیکشن کمیشن کا کام ، کسی بھی لیڈر کا کام کرنا ہے۔سنا تو یہی ہے کہ عوام طاقت کا سر چشمہ ہوتے ہیں۔ لہذا !!لوگو،اس وقت انتخابات کا عمل آمریت کو پیچھے دھکیلنے اور جمہوریت کو آگے بڑھانے کیلئے بہت ضروری ہے ۔ اسوقت اس سے زیادہ اس سے امیدیں لگانا انتہائی بچگانہ حرکت ہے ۔ انتخابات لوگوں کی خود اعتمادی ،اور احساسِ ذمہ داری کا ایک مرحلہ اور اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔۔ خدارا بڑے بڑے خواب د یکھنے کی بجائے یہ سمجھا جائے کہ یہ انتخابات تبدیلی کی طرف ایک پہلا قدم وہ بھی لڑ کھڑاتا ہوا ہے تبدیلی نہیں ، انقلاب نہیں ۔ نعروں کے شور میں سے عوام کو خود ہی سچ جھوٹ ، خواب سراب کو سمجھنا ہوگا ۔۔دل ٹوٹے گا تو سہی مگر اچھے کے لئے ۔۔
دل کا جلسہ بکھر گیا تو کیا
سارے جلسے بکھرتے رہتے ہیں
(جون ایلیا )