ضلعی حکومت نے 11 بجے ریستوران بند کرنے کا حکم 6 گھنٹے بعد واپس لے لیا۔
ضلعی حکومت نے سوچا ہو گا یار ہوٹل مالکان کو ڈراتے دھمکاتے ہیں اگر وہ ڈر گئے تو اللہ اللہ خیر صلاّ، اگر نہ ڈرے تو خود ڈر جائیں گے۔کتا جب بلی پر جھپٹتا ہے اگر بلی آگے لگ کر بھاگ جائے تو کتا شیر بن جاتا ہے لیکن اگر بلی بھاگنے کے بجائے آنکھیں دکھانا شروع کر دے تو کتا گیدڑ کی طرح دُم دبا کر بھاگ جاتا ہے، یقین کریں گزشتہ روز کچھ ایسا ہی منظر ہوٹل مالکان اور ضلعی حکومت میں دیکھنے کو ملا۔
ریستوران کے مالکان پہلے ہی جنریٹر چلا کر روزگار کما رہے ہیں، اب اگر جنریٹر سے بھی کام نہ چلائیں تو کہاں سے کمائیں، ضلعی حکومت سولر انرجی کی کمپین چلائے بڑے بڑے ریستوران مالکان کو اس پر تیار کرے تاکہ بجلی کا بحران کچھ کم ہو سکے، سولر انرجی پینلز درآمد کرنے کی بجائے مقامی سطح پر تیار کئے جائیں ‘دفاتر دکانوں فیکٹریوں کے مالکان کو فراہم کئے جائیںتاکہ کچھ پتہ تو چلے کہ ضلعی حکومت بھی کام کر رہی ہے۔
بہت سارے ترقی یافتہ ممالک میں عوام کو سولر انرجی سے استفادہ کرنے کیلئے سبسڈی دی جاتی ہے واپڈا حکام اور ضلعی حکومت ملکر سرکاری دفاتر میں سولر انرجی کا کام شروع کرے، دیکھا دیکھی ہر طرف یہ کام شروع ہوجائے گا۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
عمران پہلے مجھ سے جیتیں پھر نواز شریف کی بات کریں، سلمان شہباز شریف نے بھی مناظرے کا چیلنج دیدیا۔
بڑے میاں توبڑے ، چھوٹے میاں سبحان اللہ
عمران خان جب سے نوجوانوں کو میدان میں لیکر آئے ہیں تب سے میاں برادران بھی اپنے نوجوانوں کو میدان میں لے آئے ہیں۔ مریم نواز اور حمزہ شہباز درحقیقت نوجوان نسل کو اپنی طرف کھینچنے کا نیا طریقہ تھے۔ اب سلمان شہباز نے عمران کو مناظرے کا چیلنج کیا ہے تو میدان خوب سجے گا کہ اس سے قبل بھی سلمان شہباز ’خان جی‘ کو آڑے ہاتھوں لے چکے ہیں۔ مگر یہ چیلنج یکطرفہ نظر آتا ہے۔ عمران خان اکیلا ہے جبکہ میاں برادران دو اور دو چار ہیں یعنی نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز اور مریم نواز۔ ایک بندہ چار افراد کا مقابلہ بھلا کیسے کر سکتا ہے۔
جلسوں کو دیکھ کر تو لگتا ہے کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) دوڑ میں سب سے آگے ہیں لیکن ان کی قسمت کا فیصلہ تو 11 مئی کو عوام کریں گے، دیکھیں وہ بلے کی بَلے بَلے کرواتے ہیں یا شیر کو د ھاڑنے کا موقع دیتے ہیں۔
پیپلز پارٹی نے تو بس پروپیگنڈا مہم چلا رکھی ہے، دیکھیں تیر کو عوام توڑتے ہیں یا گڑھی خدا بخش میں مدفون بھٹو خاندان کی لاج رکھ لیتے ہیں لیکن امین فہیم سے لیکر بلاول تک کوئی بھی عوامی غصے کا سامنے کرنے کو تیار نہیں۔ جناب مسلم لیگ ہاﺅس ڈیوس روڈ پر تو الیکشن کے دنوں میں بھی ویرانیوں نے ڈیرے ڈال دئیے ہیں، اُداسی پَر پھیلائے بیٹھی ہے، یوں لگتا ہے جیسے کسی مرگ کے سوگ میں پرچم سرنگوں اور فلیکس اتار دئیے گئے ہوں بہرحال قسمت آزمانے میں کوئی حرج نہیں۔ پرویز الٰہی کی نظریں حلقہ این اے 105 پر ہیں باقی کوئی جیتے یا نہ جیتے، عمران خان کو سلمان شہباز کا چیلنج قبول لینا چاہئے تاکہ کسی کے پاس کوئی فرار کا راستہ نہ بچے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
سوئی سدرن نے گیس نرخوں میں 10 فیصد اضافے کی تجویز دیدی!
گرمیاں شروع ہونے کے باوجود گیس نہیں ملتی، لیکن اس کے نرخ لیلیٰ کی زلف دراز کی طرح بڑھتے جا رہے ہیں۔ جناب زلفوں کو بھی اگر تیل نہ لگایا جائے تو وہ بڑھنا رک جاتی ہیں۔ اب آپ ہی کچھ خیال کر لیں، گیس دیں اور بل لیں، لیکن آپ بل بڑھا رہے ہیں گیس کا پریشر نہیں، اب تو گرمیاں آ چکی ہیں کچھ خوفِ خدا کریں۔
اکٹھا 10 فیصد اضافے کی تجویز مت دیں، پہلے 10 فیصد پریشر بڑھائیں، گیس کی مقدار میں اضافہ کریں، بجلی کی طرح لوڈشیڈنگ مت کریں۔ ویسے گیس اور بجلی دونوں ہی بہنیں ہیں، آنکھ مچولی کر لیں تو گزارہ ہو جاتا لیکن زیادہ جُدائی برداشت نہیں ہوتی اس لئے وہ سُسرال کم جایا کریں تاکہ دل و جان کا رشتہ برقرار رہے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
سرینگر میں قلعے پر پاکستانی پرچم لہرادیا گیا۔
سرینگر سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی تو دہلی دروازے پر بھی سبز ہلالی پرچم لہرائے گا۔بھارتی سکیورٹی اداروں کی سٹی گم ہوگئی ہے کہ یہ راتوں رات انقلاب کیسے آگیا۔ پرچم کے ساتھ ہی ” گو انڈیا گو“ کے نعروں پر مبنی بینرز بھی لگائے گئے ہیں۔بھارتی انتظامیہ میں ایسی کھلبلی مچی ہے جیسے وزیراعظم کے قافلے میں اگر کوئی پرائیویٹ گاڑی داخل ہوجائے تو سکیورٹی والوں میں مچتی ہے۔کٹھ پتلی انتظامیہ کو چاہئے کہ بھارت کو باور کرائے کہ ظلم و جبر اور تشدد سے آزادی کے جذبہ کو روکا نہیں جا سکتا۔
جذبہ حریت پر قدغن لگانے سے آج تک نہ تو تحریکیں دبی ہیں اور نہ ہی دبائی جاسکتی ہیں لہٰذا بھارتیوں کو ہوش کے ناخن لیکر خود بخود ہی کشمیر سے اب کوچ کرجاناچاہئے کیونکہ ابھی تو بات سرینگر تک ہے کل کو مسئلہ آگے بھی بڑھ سکتا ہے لہٰذا آگے بڑھنے سے قبل یہی بہتر ہے کہ لنگوٹ کَس کر بھاگ نکلیں کہیں گیدڑ کی موت نہ ماریں جائیں۔
٭....٭....٭