حضرت ابوبکرؓ کا دور خلافت اور ہمارے حکمران

حضور نبی کریمؐ قصر نبوت کی آخری اینٹ ہیں۔ پیغمبر اعظم و آخرؐ کی نبوت و رسالت کی صداقت کی مرد حضرات میں سب سے پہلی گواہی دینے کا اعزاز حضرت ابوبکرؓ کو حاصل ہوا اور اسی نسبت سے وہ صدیق اکبرؓ کے مقام پر فائز ہوئے۔ حضرت محمدؐ نے اپنے سے پہلے تشریف لانے والے انبیاء اور رسولوں کی تصدیق کی لیکن اپنے بعد کسی نئے نبی کے آنے کی بشارت نہیں دی کیونکہ حضور نبی کریمؐ آخری نبی ہیں اور ملت اسلامیہ آخری امت ہے۔ حضور نبی کریمؐ آخری نبی ہیں اور ملت اسلامیہ آخری امت ہے۔ حضور نبی پاکؐ کی نبوت سب نبیوں سے ارفع و اعلیٰ اور اکمل و احسن ہے اور ان پر نازل ہونے والی کتاب بھی قیامت تک کے لئے دنیا کے تمام انسانوں اور زمانوں کے لئے کامل رہنما ہے۔ آفتاب رسالتؐ کے طلوع ہوتے ہی اس کی کرنوں سے حضرت ابوبکرؓ کا دل منور ہو گیا اور تصدیق رسالت کے لئے وہ سب سے پہلے اٹھ کھڑے ہوئے شاید قدرت نے ان کی تخلیق ہی اس تصدیق کے لئے کی تھی۔ خواتین میں یہ مقام ام المومنین حضرت خدیجہؓ کو اور بچوں میں یہ رتبہ حضرت علیؓ کو حاصل ہوا کہ وہ اللہ کے آخری رسولؐ کی تصدیق میں اور سب کے مقابلے میں سبقت لے گئے۔
حضرت صدیقؓ اکبر نے ایک مسلمان حکمران کی جو سب سے بنیادی خوبی بیان فرمائی وہ یہ ہے کہ وہ اللہ سے ڈرنے والا ہو اور برائیوں اور گناہوں سے بچنے والا ہو۔ اگر ایسے حکمران ہمیں میسر آ جائیں تو پھر قدرتی بات ہے کہ ان کا طرز حکومت جھوٹ، منافقت، ظلم، ناانصافی، بددیانتی، مالی بدعنوانیوں اور اقربا نوازی سے یکسر پاک ہو گا۔ دوسری اہم ترین خوبی اور ایک مسلمان حکمران کا فرق یہ ہونا چاہئے کہ وہ معاشرے کے قوی اور اثر و رسوخ رکھنے والے طبقوں کو اپنے سامنے کمزور ترین سمجھے کیونکہ ایسے لوگ دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور معاشرے کے عاجز، کمزور اور زیردست طبقوں کا یہ استحصال کرتے ہیں لہٰذا ایک مسلمان حکمران کا پہلا فرض یہ ہونا چاہئے کہ وہ عاجز، مغلوب اور کمزور لوگوں پر کسی طاقتور کو ظلم نہ کرنے دیں۔ جابروں کا ہاتھ روکنا اور مجبوروں کی مدد کرنا ایک اسلامی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ ہمارے آج کے حکمران اگر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے صرف اس فرمان پر عمل کر لیں کہ قوی اور طاقتور طبقوں سے وہ لوٹا ہوا سرمایہ، جائیدادیں ناجائز ذریعے سے حاصل کئے ہوئے وسائل چھین کر وہ ان کے اصل حقداروں کو واپس دلوا دیں تو ہمارے معاشرے میں وہ خونیں انقلاب لانے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی جس کی جانب کئی بار ہمارے پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اشارہ کر چکے ہیں۔
میں اپنی طرف سے کسی تنقید اور تجزئیے کے بغیر ہی اپنے حکمران طبقہ کے سامنے یہ سوال رکھنا چاہتا ہوں کہ کیا وہ اپنے انداز حکمرانی کو قرآن اور نبی پاکؐ کی تعلیمات اور عملی زندگی کے مطابق سمجھتے ہیں۔ کیا وہ اپنے کسی ایک اقدام اور فیصلے کا حوالہ دے کر یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ انہوں نے یہ اقدام اور فیصلہ قرآن و سنت کو اپنے سامنے رکھ کر کیا۔ کتنے طاقتوروں، ظالموں اور قومی لٹیروں کے گلے میں ہمارے ان حکمرانوں نے پھندا ڈالا ہے اور کتنے مظلوموں کو ان حکمرانوں نے انصاف دلایا ہے۔ قوم کا خزانہ لوٹنے والے جن چالیس چوروں اور ان کے سردار کو الٹا لٹکانے کا اعلان کیاگیا تھا۔ اب ان ہی افراد کو انتہائی شان و شوکت کے ساتھ وزیراعظم ہائوس میں شاہی دستر خوان پر کھانے کی دعوت دی گئی اور ’’زربابا‘‘ کے راستے میں وزیراعظم نواز شریف نے اپنی آنکھیں بچھا دیں۔ اگر ہم سودخوری کے نظام کو جاری و ساری رکھتے ہوئے اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ جنگ کی بھی پروا نہیں کرتے تو پھر کن معاملات میں ہم قرآن و سنت پر عمل کر رہے ہیں۔ رشوت دینے اور لینے والے کو بھی جہنمی کہا گیا ہے اور یہ فرمان رسول کریمؐ کا ہے لیکن ہمارے ملک میں جتنی بے خوفی اور بے شرمی سے رشوت لی جاتی ہے اتنی بے خوفی سے شاید ہی کوئی اور جرم کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں اربوں روپے کی کرپشن کرنے والوں کو سزا دینے کی بھی شاید ایک مثال نہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے اللہ کے خوف کو سب سے بڑی دانائی اور فسق و فجور کو سب سے بڑی بے وقوفی قرار دیا تھا۔ ہمارے ہاں ایک بھی سیاستدان کی مثال ابھی تک قائم نہیں کی گئی کہ جس کے متعلق فسق و فجور کی داستانیں تو عام ہوں اور اسے پارلیمنٹ یا وزارت سے نکال دیا گیا ہو۔ پچھلے دنوں ایک ممبر قومی اسمبلی نے پارلیمنٹ لاجز میں ہونے والے طوائفوں کے مجروں اور شراب نوشی کی محافل سے پردہ اٹھایا تھا۔ اس ممبر قومی اسمبلی نے بار بار اپنے اس الزام کو دہرایا اور ثبوت کے طور پر وڈیو فلم بھی پیش کر دی لیکن اس سنگین معاملے کو حکومت نے تقریباً دبا ہی دیا ہے۔ اگر ہم سیدنا صدیق اکبرؓ کے مختصر خطبہ کی روشنی میں اپنے آج کے حکمرانوں کے انداز حکمرانی کا جائزہ لیں تو جو صورتحال سامنے آتی ہے وہ انتہائی افسوسناک اور مایوس کن ہے۔ کیا یہ عدل و انصاف کی حکمرانی ہے، کیا موجودہ حکمران اپنی رعایا کے حقوق کا خیال رکھ رہے ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں کہ یہاں ظالموں کی رسی دراز ہے اور مظلوموں کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کیا ہمارے ہاں تھانوں میں کوئی ایک مقدمہ بھی ایسا درج ہوتا ہے جس کے مدعی اور ملزمان دونوں سے پولیس رشوت نہ لے۔ کیا یہاں غریب اور امیر کو ایک جیسی حصول تعلیم اور علاج معالجے کی سہولتیں میسر ہیں۔ کیا ہمارے موجودہ حکمران ایسا اعلان کر سکتے ہیں کہ اگر ہم اللہ اور رسولؐ کی نافرمانی کریں تو عوام کو ہمارے محاسبے کا پورا حق حاصل ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے پاس ذاتی طور پر جتنی اندھی دولت ہے اسکے باوجود یہ حکومت کے خزانے سے کروڑوں روپے تنخواہوں اور دیگر مراعات کی صورت میں جو حاصل کرتے ہیں اور اربوں روپے کا وزیراعظم ہائوس اور ایوان صدر کا جو سالانہ بجٹ ہے کیا ایسا شاہانہ انداز حکمرانی اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات سے کوئی مطابقت رکھتا ہے۔ کیا حضرت صدیق اکبرؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کے دور حکمرانی کی کوئی معمولی سی جھلک بھی موجودہ حکمرانوں کے عہد میں پائی جاتی ہے۔ کیا حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کی اسلامی حکومتوں کے زندہ نقوش میں سے کسی ایک نقش کی یاد بھی ہمارے ان حکمرانوں کے دور حکومت کا کوئی فیصلہ دیکھ کر آتی ہے۔ افسوس صد افسوس کہ ہم نے مسلمان ہوتے ہوئے بھی اپنی ان اسلامی حکومتوں کی اعلیٰ روایات سے کچھ نہیں سیکھا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...