”کچھ نہیں ہو گا“ !

پانامہ کیس کے حوالے سے بالخصوص الیکٹرانک میڈیا پر جو اودھم مچایا گیا اب بھی سوچ کے زاویئے اسی حصار میں جکڑے نظر آتے ہیں‘ ملک کے طول وعرض میں ہر گلی محلے‘ ہر گھر‘ ہر تقریب اور محفل میں حتیٰ کہ میتیں دفناتے وقت قبرستانوں میں بھی اس آسیب کے سائے پھیلے نظر آئے۔ بھلا کیسے ممکن ہے ایسا موضوع کسی میڈیا آفس میں زیربحث نہ آئے۔ چنانچہ پانامہ کیس کے حوالے سے سوال کیا ہو گا؟ میرا جواب تھا ”کچھ نہیں ہوگا“ کیا عدالتی فیصلہ نوازشریف کو وزارت عظمیٰ کی کرسی سے اٹھا نہیں دے گا؟ میرا جواب تھا ”ہرگز نہیں“ میرے ساتھیوں کو ناقابل یقین لگا‘ یہ 10نومبر 2016ءکی دوپہر بارہ ساڑھے بارہ بجے کا درمیانی وقت تھا چھوٹے بھائیوں جیسے ساتھی محبوب چودھری نے ایک کاغذ پر یہ جملہ لکھا اور مجھ سے دستخط کروا کر دوسرے ساتھی برادرم ساجد یزدانی کے پاس محفوظ کرا دیا۔ 20مئی کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بعض ساتھیوں نے سوال کیا اب کیا ہوگا؟ میرا جواب تھا:
یہ چمن یوں ہی رہے گا اور ہزاروں جانور
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے
پورے کیس اور سماعت کا جائزہ لیا جائے تو شریف فیملی نے لوٹ مار کی، کرپشن کی یہ سوال ضرور اٹھائے گئے مگر ایسے ٹھوس ثبوت وشواہد سامنے نہیں آئے جن کی روشنی میں پانچوں جج شریف فیملی کے خلاف فیصلہ دینے کیلئے قانونی طور پر مجبور ہوتے۔ عمران‘ آصف زرداری‘ سراج الحق سمیت ہر سیاستدان کا یہ بیان آن دی ریکارڈ ہے کہ سپریم کورٹ کا ہر فیصلہ قبول کیا جائے گا‘ تب اسے کسی بھی چیز سے مشروط نہیں کیا گیا تھا۔ اب مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ذریعے بعض سوالات کے جواب حاصل کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ نے ہی کیا ہے‘ اسے تسلیم کرنے کیلئے وزیراعظم کے استعفیٰ کی شرط یا مطالبہ کا کیا جواز ہے؟ کیونکہ کسی حتمی فیصلے تک نوازشریف کو وزارت عظمیٰ کی مسند پر سپریم کورٹ نے ہی برقرار رکھا ہے۔ اس شرط یا مطالبے کے جواز میں جو دلیل دی جارہی ہے وہ اتنی ہی بودی ہے جتنے بودے دلائل وشواہد اپوزیشن نے کیس کی سماعت کے دوران دیئے جو فیصلے کی بنیاد نہیں بن سکے۔ یہ کس قدر بودی دلیل ہے کہ وزارت عظمیٰ پر ہوتے ہوئے نوازشریف جے آئی ٹی پر اثر انداز ہوسکیں گے۔ یہ بھی دراصل لوگوں کو کنفیوز کرنے کا حربہ ہے۔ فرض کیا نوازشریف استعفیٰ دے دیتے ہیں تو ان کی جگہ کیا عمران خان، آصف زرداری یا سراج الحق میں سے کوئی وزیراعظم بنے گا؟ ہرگز نہیں۔ ان کی جگہ (ن)لیگ کا ہی وزیراعظم بنے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا جے آئی ٹی میں شامل مختلف محکموں کے آفیسرز نئے وزیراعظم کے اتنے ہی ماتحت نہیں ہوں گے جتنے نوازشریف کے ہوسکتے ہیں‘ تو کیا وہ اپنے ان اختیارات کو اپنے قائد نوازشریف کے لئے بروئے کار نہیں لائے گا، اور کیا وزارت عظمیٰ کے مسند پر بٹھانے والی (ن) لیگ اس سے یہ کام نہیں لے گی؟ تو پھر نوازشریف کے استعفیٰ سے کیا فرق پڑے گا، اور اگر ان کی جگہ آنے والا وزیراعظم جے آئی ٹی پر اثر انداز نہیں ہوسکے گا تو یہ نوازشریف کیلئے بھی ممکن نہیں ہے۔ باقی کسی تحقیقاتی عمل سے گزرنا کوئی انہونی نہیں ہے۔ نیب قانون کے تحت کسی بھی اعلیٰ ترین حکومتی عہدیدار ماسوائے صدر مملکت کسی بھی اعلیٰ سرکاری آفیسر سے پوچھ گچھ کا اختیار ہے۔ دنیا میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں حکومت اور مملکت کے سربراہ اپنے منصب پر رہتے ہوئے تحقیقاتی عمل سے گزرے۔ فرانس کے سوکوزی سے حکومتی منصب پر رہتے ہوئے تحقیقات ہوئی۔
عمران خان نے لاہور میں اڈہ پلاٹ کے مقام پر جلسہ میں کچھ کاغذات لہرا لہرا کر دعویٰ کیا تھا ”یہ وہ ثبوت ہیں جو شریف فیملی کی کرپشن کو ثابت کریں گے“ مگر یہ ”ٹھوس ثبوت“ عدالت عظمیٰ میں کوئی کرشمہ نہ دکھا سکے۔
میڈیا ٹاکس‘ اخباری تبصروں اور کالموں میں کچھ ایسے ہیں جنہیں سب سے زیادہ پریشانی یہ ہے کہ مریم نواز کو مجرم قرار دیکر سیاست سے نااہل قرار کیوں نہیں دیا گیا۔ حالانکہ مریم نواز کا زیر کفالت ہونا ثابت ہی نہیں کیا جاسکا۔ جے آئی ٹی میں حسین نواز اور حسن نواز نے یہ ثابت کردیا کہ نیلسن اور نیسکول کمپنیوں کے قیام کے لئے پاکستان سے پیسہ نہیں گیا تو محض ٹرسٹی ہونے کی بنا پر مریم کو مجرم نہیں ٹھہرایا جاسکے گا۔ دوسرے بینک سے قرضے کے سلسلے میں مریم کے دستخط اور شناختی کارڈ کا استعمال ہونا بھی جرم اس لئے نہیں بنتا یہ قرضہ پاکستان کے کسی بنک سے نہیں جرمنی کے بنک سے لیا گیا تھا۔ کیا یہ غور طلب نہیں ہے کہ میاں نوازشریف کے بعد حسین نواز اور حسن نواز سے کہیں زیادہ مریم نواز ہی ہدف تنقید کیوں ہیں؟ ایسا کیوں ہے اس کا جواب بھی میرے 10نومبر 2016ءکو نوائے وقت میں شائع شدہ کالم کے اس اقتباس میں یوں ہے۔
”.... اس کا مطلب ہے نشانہ صرف وزیراعظم نوازشریف کی ذات ہے اور بغور جائزہ لیا جائے تو وزیراعظم سے زیادہ ان کی صاحبزادی مریم نشانہ ہے، کیونکہ بالفرض عدالتی فیصلے یا دیگر کسی وجہ سے وزیراعظم کو نااہل قرار دیا جائے تب بھی ان کی سیاست کا تسلسل برقرار رہے گا۔ مریم نواز جب سیاسی میدان میں سرگرم ہوں گی تو رائے عامہ کیلئے انہیں نظر انداز کرنا مشکل ہوگا کیونکہ وہ واحد شخصیت ہیں جو پارٹی کو اسی آن بان کے ساتھ چلا سکتی ہیں۔ وہ پارٹی کے ایسے لیڈر کے معیار پر پورا اترتی ہیں جو ذاتی کشش بھی رکھتا ہو اور جو میاں نوازشریف کی مقبولیت کا حصہ دار بھی بن سکتا ہو، اگرچہ میاں شہبازشریف کی صورت میں پارٹی میں ایک بہت قدآور شخصیت موجود ہے لیکن لمحہ موجود کی حقیقت یہ ہے کہ بنک ووٹ نوازشریف کا ہے اور پاکستانی ووٹر ابھی سیاسی وراثت کے سحر سے خود کو آزاد نہیں کراسکا ہے۔“
لہٰذا اگر بالفرض نوازشریف کو سیاسی منظرنامہ سے ہٹا بھی دیا جائے تب بھی ان کی جگہ اقتدار کے خواہاں حضرات کو منیر نیازی کے بقول:
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
انہیں مریم نواز کی صورت میں ”ایک اور دریا“ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بہرحال عمران خان اور حتیٰ کہ چودھری نثار کے بقول آصف زرداری بھی ”قیامت کی نشانی“ کے طور پر اگر کرپشن کے خلاف ”جہاد“ پر نکلتے ہیں تو لائق صد تحسین‘ لیکن انہیں قدم قدم پر ”دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ“ کے چبھتے سوالوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ اب کیس کا دارومدار منی ٹریل پر ہے۔ ویسے تو مفروضہ ہی ہے اگر قطری شہزادہ جے آئی ٹی میں آکر بیان دیدے کہ سارا پیسہ میں نے نوازشریف کو دیا تھا‘ تو پاکستان کے کس قانون کی کہ گرفت میں آئے گا‘ یہ سوالیہ نشان ہے!

ای پیپر دی نیشن