ایران کے بغیر ”اسلامک نیٹو“ کی ساکھ متاثر کن نہیں ہو سکتی

پاکستان ایران کو سعودی عرب کی سربراہی میں فوجی اتحاد کیلئے پیشکش پر غور کے حوالے سے قائل کرنے میں ناکام ہو گیا، وزارت خارجہ کے مطابق پاکستان ایران کی کثیر القومی اتحاد میں شمولیت کیلئے کوشش کر رہا تھا۔
پاکستان دو مسلمان ممالک کے مابین اختلافات اور کشیدگی کی خلیج پاٹنے کیلئے سرگرم ہے۔ بادی النظر میں یہ مدعی سست گواہ سست والا معاملہ ہے۔ سعودی عرب نے کثیر القومی اتحاد تشکیل دیا تو ان ممالک کو بھی اتحاد میں شمولیت کی خبر نہیں تھی جن کو اس کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔ پاکستان کی وزارت خارجہ اتحاد کے اعلان کے بعد اسکی تفصیلات تلاش کر رہی تھی۔ اب تک یہ بھی واضح نہیں کہ سعودی عرب ایران کی شمولیت چاہتا بھی ہے یا نہیں۔ اگر چاہتا ہے تو خود ایران کو اس اتحاد کا حصہ بننے کی دعوت کیوں نہیں دیتا؟ اس اتحاد سے ایران، عراق، شام، لبنان اور یمن سمیت کئی مسلم ممالک کو الگ رکھا گیا ہے۔ ان ممالک میں سے بھی کئی دہشتگردی کا شکار ہیں۔ یہ اتحاد دہشتگردی کے خلاف بنایا گیا ہے تو مذکورہ ممالک کی شرکت بھی ضروری ہے۔ ایران اس اتحاد سے اپ سیٹ ہے۔ اہم ممالک کو اتحاد سے باہر رکھ کر اسکی افادیت اور کارکردگی تو زیر بحث ہو گی ہی‘ اسکی ساکھ بھی متاثر کن نہیں ہو گی۔ بہتر ہوتا کہ سعودی عرب او آئی سی ممالک کا پلیٹ فارم دہشتگردی کیخلاف استعمال کرتے ہوئے فوجی اتحاد تشکیل دیتا۔ اس کارخیر کے اب بھی راستے کھلے ہیں۔اس تناظر میں صدر مملکت ممنون حسین اور چیئرمین سینٹ میاں رضاربانی نے گزشتہ روز اردن کی سینٹ کے صدر فیصل الکیف الفانز سے اپنی الگ الگ ملاقاتوں میں بجا طور پر باور کرایا ہے کہ مسلم دنیا کو اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے مشترکہ نکات پر متفق ہونا ہوگا۔ اس وقت مسلم دنیا کو دہشت گردی کے جن سنگین خطرات کا سامنا ہے‘ ان سے مسلم دنیا میں اتحاد و یکجہتی کا عملی مظاہرہ کرکے ہی عہدہ برا¿ ہوا جا سکتا ہے جبکہ اسلامی نیٹو اس اتحاد و یکجہتی کا بہترین ذریعہ بن سکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن