پاک فوج کی فہم و فراست سے خارجہ پالیسی میں توازن

Apr 27, 2018

سید سردار احمد پیرزادہ

سیاسی کھیت کی بدذائقہ خبروں کے اُس پار کچھ اچھی خبریں بھی چل رہی ہیں جن کا اندرونِ ملک زیادہ نوٹس نہیں لیا جا رہا لیکن بین الاقوامی سطح پر حساس انٹرنیشنل میڈیا اور فارن پالیسی کے ماہر اِن خبروں پر چوکنا ہو گئے ہیں۔ گزشتہ 70 برسوں سے سب پاکستانی یہ خواہش رکھتے آئے ہیں کہ پاکستان کو امریکی لابی سے نکل کر متوازن خارجہ پالیسی کی طرف جانا چاہئے۔ ایک عام پاکستانی سے لے کر ماہرین تک کے نزدیک چین اور روس اس حوالے سے بہترین متوازن آپشنز ہو سکتی ہیں۔ پاکستان کا چین کے ساتھ میل جول اور اٹھنا بیٹھنا 60ء کی دہائی سے شروع ہو گیا تھا۔ اُس وقت سے لے کر اب تک پاک چین تعلقات کم و بیش آگے ہی بڑھتے آئے ہیں۔ پاک چین کامیاب تعلقات کی پراڈکٹس میں مسلح افواج کے معاملات کو لے کر مختلف ٹیکنالوجیز میں باہمی تعاون، جے ایف سیونٹین تھنڈر کی تیاری وغیرہ اور سمندری حفاظت کے کئی اقدامات کا ذکر کیا جا سکتا ہے جبکہ سِول سائیڈ پر مختلف ادوار کے کئی پراجیکٹس اور حالیہ برسوں کے نمایاں کاموں میں بجلی گھر اور ڈیم وغیرہ شامل ہیں۔ پاک چین دوستی کی اب تک کی ایک اہم ترین ظاہری پراڈکٹ سی پیک ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ کی فلاسفی نے دنیا کے ہر چھوٹے بڑے ملک کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ دنیا کی ’’اکنامک لائف لائن‘‘ کی حیثیت رکھنے والی ون بیلٹ ون روڈ کا وجود پاکستان کے سہارے ہی مکمل ہوتا ہے۔ مندرجہ بالا تذکرے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے چین کے ساتھ ہرلحاظ سے تسلی بخش تعلقات ہیں۔ دوسری طرف روس کے ساتھ پاکستان کے معاملات ابتدائی سطح سے بھی دور تھے۔ اس کی بڑی وجہ روس کی پاکستان سے ناراضگی تھی۔ روس کے خیال میں سوویت یونین کو توڑنے میں پاکستان نے کرائے کے امریکی ایجنٹ کا کردار ادا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان اور روس کے تعلقات کبھی بھی اچھے نہ تھے لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد یہ تعلقات روس کی جانب سے باقاعدہ ناپسندیدگی میں بدل گئے۔ یہ علیحدہ بات کہ شروع سے امریکی کارندہ ہونے کے باوجود 80ء کی دہائی کے علاوہ پاکستان کے سب چھوٹے بڑے کمزور اور مضبوط حکمرانوں کی درپردہ یہ خواہش ضرور رہی کہ روس کی قربت حاصل کی جائے لیکن پاکستان کی بعض ڈبل پالیسیوں کی وجہ سے روس نے پاکستان کی اِس خواہش کو نزدیک نہ پھٹکنے دیا جس کا بھرپور فائدہ ہندوستان نے اٹھایا۔ تاہم کچھ عرصے سے ایسے آثار نمودار ہوئے جن سے واضح طور پر یہ پتہ چل رہا ہے کہ پاکستان اور روس کے باہمی تعلقات برسوں کا سفر دنوں میں طے کرکے قریب سے قریب تر ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی روس سے قربت کی خواہش کو روس کی جانب سے پذیرائی ملنے کی ایک اہم وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ پاکستان نے کسی حد تک اپنی خارجہ پالیسی میں کرائے کے ایجنٹ کا کردار ادا کرنا چھوڑ دیا ہے جس کے باعث روس نے بھی پاکستان کو اعتماد کی نظروں سے دیکھنا شروع کیا۔ اِس فیصلے کا سہرا پاکستان کی ملٹری قیادت کو جاتا ہے جنہوں نے بہت بڑا خطرہ مول لے کر پاکستان کو متوازن اور خوددار خارجہ تعلقات کی طرف لے جانے کا فیصلہ کیا۔ پٹڑیوں کی اِس تبدیلی کی خبریں کچھ عرصے سے سامنے آنا شرو ع ہو گئی تھیں لیکن موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان اور روس کے تعلقات کو یہ واضح سمت دی ہے۔ اس کا بخوبی اظہار روسی زمینی افواج کے کمانڈر کرنل جنرل اولیگ سالیوکوف نے جنرل باجوہ کے حالیہ دورے میں روس پہنچنے پر اپنے استقبالیہ کلمات میں کیا۔ روسی جنرل نے کہا کہ پاکستان ایک اہم ملک ہے۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کامیابیوں اور علاقائی امن و استحکام کے لئے پاکستان کے کردار کو سراہا۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس دورے کے دوران جب روسی چیف آف جنرل سٹاف جنرل گراسیموف سے ملاقات کی تو روسی چیف آف جنرل سٹاف نے بھی دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کامیابیوں اور قربانیوں کا اعتراف کیا۔ اس موقع پر چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاکستان سرد جنگ کے اثرات سے مکمل طور پر نکلنا چاہتاہے۔ ان کا یہ پیغام ڈی کوڈ کیا جائے تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ روسی بزنس مین پاکستان میں بینک سمیت مختلف شعبوں میں بڑی سرمایہ کاری کا منصوبہ لے کر جلد پاکستان آنے والے ہیں۔ کسی بھی فوج کی کامیابیوں کا اندازہ مخالف سمت کی صفوں میں پڑی کھلبلی سے لگایا جاسکتا ہے۔ روس، چین اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے باہمی تعلقات سے مخالفین کے ہاں جو صفِ ماتم بچھنی شروع ہوئی ہے اُس کی اطلاع وہ پاکستان کو مختلف صورتوں میں دھمکا کر دے رہے ہیں۔ مثلاً فارن پالیسی ڈاٹ کام میں شائع ہونے والے سی کرسٹین فیئر کے آرٹیکل میں لکھا ہے کہ ’’پاکستان چین کی دوستی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ اگر پاکستانی ایلیٹ سمجھتے ہیں کہ چین کی دولت ملک کو بچا لے گی تو وہ غلط ہیں‘‘۔ اسی آرٹیکل میں چین کے حوالے سے پاکستان کے دل میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے آفیشل نے اپنے ایک بیان میں دھیمی وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان جو امریکہ سے لے سکتا ہے وہ اُسے چین سے نہیں ملے گا اور ہمیں یقین ہے کہ پاکستان دونوں ملکوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کی بجائے دونوں کے ساتھ تعلقات رکھنا چاہتا ہے۔ ہمارے خیال میں پاکستان واضح طور پر سمجھ سکتا ہے کہ جو تعلقات ہم انٹرنیشنل سطح پر لا سکتے ہیں وہ چین نہیں لا سکتا‘‘۔ سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے ’’اسلحے کی فراہمی میں انٹرنیشنل رجحانات 2017‘‘ کے عنوان کے تحت اپنی حالیہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’’پاکستان، بنگلہ دیش اور میانمار کے لئے چین رائفلز اور لڑاکا طیاروں سے لے کر بحری جنگی جہازوں تک کا مرکزی سپلائر بن گیا ہے‘‘۔ یہ رپورٹ جنوبی ایشیاء کے جیوپولیٹیکل میدان میں بڑی تبدیلی کی عکاسی کرتی ہے۔ اس برس اگست ستمبر میں شنگھائی کانفرنس آرگنائزیشن کے آٹھ فل ممبرملکوں کی دہشت گردی کے خلاف مشترکہ ملٹری ایکسرسائز ہونے جا رہی ہے۔ اس کی میزبانی روس کرے گا جس میں پاکستان بھی شامل ہو گا۔ بھارت کو بھی آخرکار اس میں شمولیت کا اعلان کرنا پڑا۔ کیا یہ پاکستان کی دفاعی خارجہ پالیسی کی جیت نہیں ہے؟ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کسی ایک ملک پر انحصار نہ کرنے کی موجودہ پالیسی خودداری اور ملکی مفاد میں آزاد فیصلے کرنے کی طرف اہم قدم ہے۔ پاکستان کے سکیورٹی ادارے اس فیصلے سے پیش آنے والے خطرات کو بھی بخوبی سمجھتے ہیں اور انہیں نمٹنے کا پکا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور پاک فوج کی سب اعلیٰ قیادت فہم و فراست کے ساتھ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں آزادی لانے کی جو کوشش کر رہی ہے اُس کی سپورٹ پاکستان کی سیاسی قیادت سمیت سب طبقات کو بلند آواز سے متفقہ طور پر کرنی چاہئے کیونکہ یہ مستقبل کے آزاد اور خوددار پاکستان کے لئے ضروری ہے۔

مزیدخبریں