دوسروں کی بنائی عمارتوں پر اپنے ناموں کی تختیاں کیوں؟

مکرمی! کس قدر تکلیف دہ اور اذیت ناک امر ہے کہ وطن عزیز پر بانی پاکستان اور انکے بے لوث ساتھیوں کی آنکھ بند ہوتے ہی ایسے لوگ مسندِ اقتدار پر قابض ہو گئے جو انگریز اور بنئے کے خیر خواہ اورشاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار تھے۔۔ مرے بھی تو اس دھرتی نے ان کا وجودِ نامسعود قبول نہ کیا۔ مگر ‘‘درود’’ کے لئے سر زمینِ پاک کے اثاثوں پر اصل وارثوں کی مرضی کے بغیر اور برعکس اپنے نام کی تختیاں لگوا دیں۔ پون صدی سے یہ خودساختہ سیاسی اشرافیہ مگر جو حقیقتاً خودسر مافیا ہے، نے اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی مگر اس سے بھی جب پیٹ نہ بھرا تو اس کے قیمتی اثاثوں پر اپنے ناموں کی تختیاں لٹکا ڈالیں کہ جیسے یہ پورا پاکستان ہی انکے باپ دادا کی جاگیر ہو اور یہ مافیاز جس کو چاہیں عنائت کریں یا جس طرح چاہیں استعمال کریں۔ کیا انہوں نے کبھی کوئی ایسی چیز اپنی جیب سے بھی بنوائی کہ جس پر یہ اپنا نام لکھتے شرمندہ نہ ہوتے؟ یہ سب اثاثے حکمران طبقوں نے اپنے خاندانوں میں بندر بانٹ کے ذریعے تقسیم کر لئے ہیںاور پہلے سے بنے ہوتے کالج، یونیورسٹیاں، ہوائی اڈے ، ریلوے سٹیشن حتٰی کہ بنے بنائے اور آباد شہروں پر بھی اپنے آباؤ اجداد اور عزیز و اقارب کے نام کی تختیاں لٹکا دی ہیں۔اندریں حالات جناب قاضی القضاۃ پاکستان اور سپہ سالارِ سپاہ پاکستان سے گزارش ہے کہ انہیں اس امر قبیح سے نا صرف باز رکھا جائے بلکہ پہلے سے رکھے گئے ناموں کو بدل کر تحریکِ پاکستان اور تاریخِ اسلام کے مشاہیر کے نام پر رکھے جائیں۔اسی طرح CDA اور LDA کے ذمہ داران بھی عقل کے ناخن لیں اور اس طرح رکھے گئے ناموں کو بدلیں اور آئندہ ایسی کسی حماقت سے مسلمانان پاکستان کو اذیت دینے سے اجتناب کریں۔ (میاں محمد رمضان، قائدِ اعظم ٹاؤن لاہور۔ موبائل نمبر :0333:4323373)

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...