لاک ڈائون بمقابلہ قومی سلامتی

ارباب اقتدار ابھی تک لاک ڈائون کی تعریف میں الجھے ہوئے ہیں جبکہ میں 27 فروری سے ہی ملک بھر میں مکمل لاک ڈائون اور میڈیکل ایمرجنسی کی وکالت کر رہا ہوں جبکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے بھی اس سلسلے میں میرے نظریات سے اتفاق کرتے ہوئے کرونا کا پھیلائو روکنے کیلئے حکومت اور ملکی اداروں سے ملک بھر میںمکمل لاک ڈائون کی اپیل ہے۔ تاہم وفاقی اور صوبائی حکومتیں سمارٹ لاک ڈائون سے جزوی لاک ڈائون تک کئی حربے اختیار کر رہی ہیں حالانکہ لاک ڈائون کی صرف ایک ہی قسم ہے جو بنیادی طورپر کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہے جس کا مقصد عوام کو کسی خاص علاقے سے باہر جانے سے روکنا ہے۔ اس کیلئے کمانڈنگ اتھارٹی کو ہی کردار ادا کرنا ہوگا جو ایمرجنسی نافذ کر سکے اور لاک ڈائون کو مکمل طورپر قانون بنانے کا حکم دے سکے۔ اس کا استعمال امن و امن کے نفاذ کیلئے کیا جا سکتا ہے تاکہ وباء کی روک تھام کیلئے عوام کو سماجی رابطوں‘ باہمی میل جول سے روکا جائے۔ اس حوالے سے کئی ملکوں نے ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے قوانین نافذ کئے ہیں جبکہ ہمارے ملک میں حکومت خود ہی الجھن کا شکار ہے۔ یوں لاک ڈائون اور اس سے متعلقہ امور نے عام آدمی کو بھی الجھا رکھا ہے کیونکہ جب تک قانون کی حکمرانی کو یقینی نہیں بنایا جاتا‘ حکومت کے کسی فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوگا۔ اس وباء پر قابو پانے کیلئے مشتبہ مریضوں کو میل جول سے روکنا ہے کیونکہ مریض کے ٹیسٹ کے بغیر کرونا کی تشخیص ممکن نہیں۔ اس حوالے سے حکومت قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہی ہے حالانکہ حکومت خود بھی ایک ایسے کرونا مریض کا پتہ لگانے میں ناکام رہی جس نے وزیراعظم‘ ان کے عملہ اور بعض کابینہ ارکان کے ساتھ ایک گھنٹے سے زائد وقت گزارا۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق اگر کسی علاقے میں ایک مریض کی تشخیص ہوتی ہے تو سمجھ لیں کہ پہلے سے 28 افراد متاثر ہیں۔ اسی اصول کے تحت ملک میں کرونا مریضوں کی تعداد 12 ہزار سے زائد ہے جبکہ 3 لاکھ کے قریب ایسے افراد ہیں جو نادانستہ طورپر دوسروں کو متاثر کر رہے ہیں۔ حکومت پہلے اس ہنگامی صورتحال کی وضاحت کرے پھر پارلیمنٹ کے ذریعے یا آرڈیننس کی صورت میں مناسب اور یقینی لاک ڈائون کے حوالے سے قانون بنایا جائے‘ تاہم میری تجویز اس پر قانون سازی کی ہے کیونکہ قومی سلامتی کے تقاضوں اور اس وبائی مرض پر قابو پانے کیلئے یہ ہنگامی صورتحال مختلف نوعیت کی ہے۔ اصل مسئلہ عوام کو قانون کی حکمرانی سے آگاہ کرنا ہے کیونکہ ایمرجنسی کے تحت لاک ڈائون کے دوران عوام کو مقدمہ کا سامنا یا گرفتاری کی پروا ہے نہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر کسی سزا کا ڈر ہے۔ کرونا وائرس پھیلنے پر دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر لاک ڈائون کیا گیا۔ اس سے قبل تاریخ میں لاک ڈائون کے اقدامات 15 ویں‘ 16 ویں‘ 17 ویں صدی میں طاعون کے دوران کئے گئے تھے کرونا وائرس کے خلاف کئے جانے والے حالیہ اقدامات کی طرح 400 سال قبل اٹلی میں طاعون کے خلاف اقدامات کئے گئے تھے۔ سیدنا رسول کریمؐ نے فرمایا جب کسی علاقے میں طاعون کے پھیلنے کی خبر ہو تو وہاں نہ جائو اور اگر پہلے ہی ایک طاعون زدہ علاقے میں ہوں تو وہاں سے مت بھاگیں۔‘‘ آج ہمیں بھی آقا کریمؐ کے اس فرمان پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے اور ہمارے نبی کریمؐ کا مبارک فرمان ہی اس وباء سے مقابلے کرنے کا واحد راستہ ہے۔ بدقسمتی سے مہلک وباء ہم پر حملہ آور ہے اور ملکی آبادی کا بڑاحصہ اس کا شکار ہے۔ اب دو چیزوں میں سے ہمیں ایک کا انتخاب کرنا ہوگا کہ یا تو ہم وائرس کو حملہ کرنے کی اجازت دیدی یا پھر خود کو اور اپنے پیاروں کے بچانے کیلئے سخت ترین اقدامات کر گزریں۔
کیا کوئی ’’سمارٹ لاک ڈائون‘‘ کی وضاحت کر سکتا ہے۔ البتہ میں اسے ’’آدھے سے زیادہ لاک ڈائون‘‘ کا نام دیتا ہوں کیونکہ یہ ڈبلیو ایچ او کے مقرر کردہ ’’لاک ڈائون پروٹوکول‘‘ پر پورا نہیں اترتا‘ تاہم موجودہ صورتحال میں دوستانہ لاک ڈائون کی ضرورت ہے کیونکہ عام دنوں میں وقت آپ کوچلاتا ہے جبکہ دوستانہ لاک ڈائون میں آپ اپنا راستہ خود بناتے ہیں۔ لہٰذا آپ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے فیملی کے ساتھ وقت گزاریں۔ وقت اور خود کو منظم کریں۔ رجوع الی اللہ تعالیٰ کو یقینی بنائیں کیونکہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ تنہائی بھی اللہ تعالیٰ کا تحفہ ہے۔ چرچل سے کسی نے کامیابی کا راز پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ’’میں روزانہ آدھا گھنٹہ اکیلا بیٹھتا ہوں۔‘‘ میں نے بھی اسی لاک ڈائون کے دوران ’’کرونا وائرس بمقابلہ قومی سلامتی‘‘ اپنی نئی کتاب لکھی ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس وباء سے جلد چھٹکارا دے۔ (آمین)
(ترجمہ: ڈاکٹر شاہ نواز تارڑ)

ای پیپر دی نیشن