حضرت علامہ کا صرف ایک یہ عمل خودشناسی اور مردم شناسی کے علاوہ زمانوں کی نبض شناسی کی اعلیٰ اور واضح دلیل ہے ۔ تمام ہندوستان کہہ رہا تھا کہ مسلمانان ہند علامہ کی شاعری سے بیدار ہوئے لہذا انہیں ہی اپنا رہبر اور نجات دہندہ تصور کرتے ہیں مگر علامہ کی نگاہ بصیرت کو کسی اور کی تلاش تھی کسی رفیق درد شناس کی تمنا تھی کسی دیدہ ور کے متلاشی تھے آپ نے قیادت کا ایک معیار کچھ یوں واضح کیا۔
نگاہ بلند سخن دلنواز جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے
علامہ کے اس خط نے ہی تاریخ کا دھارا موڑ ڈالا جس میں آپ قائد کو مخاطب کرکے فیصلہ سناتے ہیں مسٹر جناح!مسلم قوم کی کشتی کو آپ کے سوا کوئی منجدھار سے نہیں نکال سکتا صرف علامہ کا یہ فیصلہ قیام پاکستان کا موجب ثابت ہوا ۔ بڑا مشکل مرحلہ ہوتا ہے کہ وقت کے صاحب علم ودانش علامہ کو رہبر مانتے ہیں اور حضرت علامہ اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے کسی دوسرے کے ہاتھ میں فتح کا پرچم تھماتے ہیں اسی لئے آپ کو مستقبل شناس اور صدیوں آگے بصارت کا حامل رہبر مانا گیا ۔حضرت علامہ محمد اقبال کو 1934ء میں گرم دودھ میں سویاں کھانے سے گلا بیٹھنے کی شکایت ہوئی ۔ حکیم نابینا نے سردا علاج تجویز کیا ۔ افغان حکمران بطور تحفہ آپ کو سردا بھیجتے ۔ آم کے بھی بڑے شوقین تھے مگر شوگر ہونے کے بعد خود نہ کھاتے دوستوں کو کھلا کر خوش ہوتے ۔ عشق رسول ﷺعلامہ کی نس نس میں سرایت کر چکا تھا یہی وجہ ہے کہ کلام اقبال قرآن اور صاحب قرآن کے علاوہ کچھ ۔
علامہ کی تمنا تھی کہ آپ کی عمر نبی کریم ﷺسے زیادہ نہ ہو لہذا رب رحمن و رحیم نے 9 نومبر 1874ء میں پیداہونے والے اقبال نامی عاشق مصطفیؐ کی تمنا کے عین مطابق 21اپریل 1938ء کو جہان فنا سے جہان بقا کا سفر عطا فرمایا ۔آپ کی رحلت پر پورے عالم اسلام میں کہرام مچ گیا حضرت قائداعظم بھی اپنے رفیق درینہ سے محروم ہونے پر بڑے ملول اور آبدیدہ تھے ایک موقع پر حضرت قائداعظم نے فرمایا کہ اگر مجھے کسی سلطنت اور اقبال میں انتخاب کا کہا جائے تو میری پسند اقبال ہیں۔ حضرت اقبال کی رحلت پر سب سے پہلے طویل نظم مولانا اختر کاکوی نے تحریرکی جس کے چند اشعار یہ ہیں
اب قوم کی آنکھوں کا ستارا نہ رہا
جس سے اردو کو تھا سہارا نہ رہا
سرپیٹ کے دنیائے ادب کہتی ہے
افسوس کہ اقبال ہمارا نہ رہا
قبلہ مولانا ظفر علی خان بڑے غم و الم سے دو چار تھے آپ نے فرمایا
گھر گھر میں چرچا ہے کہ اقبال کا مرنا
اسلام کے سرپر ہے قیامت کا گزرنا
کلکتہ کابل میں بچھی ہیں صف ماتم
اس غم میں سیاہ پوش ہے بغداد و سمرنا
حضرت علامہ کے اپنے ہم عصر مسلم مشاہیر سے بڑی رغبت و محبت کے تعلقات تھے۔وہ مذہبی رہنما ہو یا سیاسی و سماجی رہبر حضرت علامہ کسی نہ کسی طور ان تمام حضرات سے ربط و محبت رکھتے ۔راقم الحروف کو علامہ کے فرزند رشید جناب جسٹس جاوید اقبال سے پہلے ایک مسلم لیگی کارکن ہونے کی نسبت ملاقات تھی بعدازاں نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں اکثر مشرف ملاقات حاصل رہا ۔جسٹس جاوید کے منہ سے علامہ کی زندگی پر محیط واقعات سننے کو ملتے ۔مسلم ملت کے لئے ان کا درد اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے ان کا فکرو عزم سن کر نئی جہدو ولولوں سے مستفید ہوتے۔حضرت علامہ کی مسلم مشاہیر سے بے تکلفی و محبت و رغبت کا واقعہ جناب جاوید اقبال کچھ یوں بیان فرماتے ہیں کہ تحریک خلافت کے حوالے سے علی برادران کراچی جیل میں رہے ۔رہائی کے بعد یہ دونوں مجاہد بھائی مولانا محمد علی جوہر ، مولانا شوکت علی لاہور ہمارے گھر تشریف لائے ۔بڑی پُرجوش عقیدت ومحبت سے سرشار محفل تھی جس میں برصغیر کی دوسری بڑی شخصیات شامل تھیں۔جسٹس جاوید اقبال نے بتایا کہ علی برادران کی دعوت کے موقع پر کوفتے کباب ،پلائو و دیگر لوازمات میری والدہ نے اپنے ہاتھوں سے تیار کئے ۔جاوید اقبال نے مزید بتایا کہ ملاقات کے دوران مولانا محمد علی جوہر نے علامہ کو مخاطب کرتے ہوئے برجستہ بڑے بے تکلفانہ انداز میں کہا کہ اقبال تم بڑے اپدیشک ہو اپنے کلا م سے ہمیں گرما کر خود گھر بیٹھے ہو اور ہم ریل و جیل کی صعوبتیں برداشت کرتے پھرتے ہیں۔جس کے جواب میں مسکراتے ہوئے بڑی شگفتگی سے جواب دیا کہ جناب میں تو آپ کا قوال ہوں میرا کام محفل کو گرمانا ہے اور آپ وجد کی کیفیات سے سرشار ہوتے ہیں۔اس بات پر قہقہہ بلند ہوا اور محفل کشت زعفران ہوئی۔ (ختم شد)
کلکتہ و کابل میں بچھی ہیں صف ماتم
Apr 27, 2020