2014 کی بات ہے جب نئی دہلی نے افغانستان میں باقاعدہ اپنی مداخلت کا سلسلہ عروج پر پہنچایا یہ وہ وقت تھا جب امریکی ونیٹوافواج کی افغانستان سے انخلاکی بازگشت دنیا نے پہلی بار سنی علاقائی اور عالمی سطح پر اطمنان اور سکون کاسانس لیا گیا جنوبی ایشیا میں امن سے امیدیں وابستی کی گئیں،اْن دنوں امریکا نے نہایت محتاط انداز میں دوغلے پن کی سفارتی کاریوں کی اپنی چالیں چلتے ہوئے افغانستان کے مستقبل کا ٹھیکہ بھارت کو دینے خطہ میں بھارتی بالادستی قائم کرنے کی اپنی مکروہ ناپاک سازشوں کا بھی جال بچھانا شروع کردیا تھا،خطہ کو طاقت کے عدم توازن سے دوچار کرنے کی اس خفیہ سازش کا ایک سرا امریکی سرپرستی میں ’’انڈوتبت ITB-500‘‘کی تشکیل سے ملتا ہوانظرآیا اسی’انڈو تبت پولیس کے خفیہ اسپیکٹرم‘سے اْن کمانڈوز کا انتخاب کرنا شروع کردیا گیا تھا جنہیں افغانستان کے امن کو عدم استحکام کے لئے استعمال کئے جانے کی باتیں عالمی اورعلاقائی سیاست پر ماہرانہ نظر رکھنے والوں کے ذہنوں میں ابال کی مانند اچھل رہی تھیں گواپنی جگہ یہ امورسی آئی اے اوررا کے خیالوں میں پاکستانی حساس سیکورٹی کیاداروں سے خصوصا آئی ایس آئی سے مخفی سمجھے گئے جبکہ ملکی حساس سپریم ادارے اْس وقت بھی پوری طرح سے معاملے کی تمام ترکڑیوں سے آگاہ اور چوکس تھے آج بھی چوکنا اورافغانستان کے اندرونی حالات کو خراب کرنے والوں پراپنی سخت اور کڑی نگاہیں جمائے اُنہیں علم ہے کہ افغانستان کے زراعت،مواصلات اورمعدنیات کے شعبوں میں بھارت کی چودہ فرموں کو کام کرنے کے مواقع امریکی آشیرباد میں کیسے فراہم کیئے گئے ان بھارتی اداروں کو یہ ذمہ داری بھی تفویض کی گئی کہ وہ افغان سیکورٹی فورسنز،فارن سروسنزاور پولیس سروسنز کو ٹریننگ دیں اْن ہی دنوں میں را نے این ڈی ایس کے ٹرینز کو راجھستان کے ٹریننگ کیمپوں میں تربیت دینا کیکام کا آغاز کیا تھا اْس وقت سے اب تک را اور دیگربھارتی خفیہ اداروں کی نگرانی میں کابل کے اردگرد کے علاقوں میں بھارتی تربیت شدہ یہ ادارے بہت زیادہ سرگرم دکھائی دے رہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسی علاقائی تکبر کے زعم نے بھارت کو بے قابو کیا ہوا ہے، ہمیشہ اپنی اوقات بھول جاتا ہے کہ امریکا اْس کی پشت پر کھڑا رہے گا؟ جان بوجھ کر نئی دہلی پاکستان کی علاقائی’’اسٹرٹیجک پوزیشن‘‘کی حساسیت اور نازک اہمیت کو صرف نظر کرکے سمجھتا ہے کہ دنیا یونہی بیوقوف بنی رہے گی؟نئی دہلی کے حکمران تاحال صدرٹرمپ کی اْسی عسکری حکمت عملی کے اعلامیہ کے نشے سے نکلنا نہیں چاہتے امریکا نے افغانستان کے حوالے سے اسٹیٹ آف دی یونین کے خطاب کے موقع پرجو’’عسکری حکمت عملی ‘‘اس اہم معاملے کے فریقوں کواْس وقت بھی ناقابل قبول تھیں سوآج ثابت ہوگیا ہے کہ ٹرمپ نے نہایت ہی غلط اندازے لگائے تھے ’زمانہ ہوا صاحبو!وہ باتیں کب کی ہوا ہوگئی ہیں‘‘کب کا امریکا افغانستان میں19 برس تک جنگی جھک مارنے کے بعد اب اپنے نفع ونقصان کے حساب کتاب سے گزررہا ہے19 سال کی جنگ‘ایک کھرب ڈالر کے خرچہ کے بل فہرست صدر ٹرمپ کے’’افغانستان عسکری حکمت عملی‘‘کا مذاق اُڑا رہی ہے اس دوران پلوں کے نیچے سے حد سے زیادہ پانی بہہ چکا ہے امریکا کو تسلیم کرنا پڑ گیا کہ ’’افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ ہی امریکی فوجیوں کی امریکا باحفاظت واپسی کی راہیں متعین کرئے کا واحد راستہ بچا ہے جس میں پاکستان کے علاوہ اور کوئی ملک امریکا کی مدد نہیں کرسکتا، لہذا پاکستان کی مسلسل اور لگاتار کوششوں کے نتیجے میں عالمی سازشوں کی ناکامیوں کے بعد رواں برس فروری کے آخری ایام میں دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پربالاآخر باقاعدہ دستخط ہوگئے کابل انتظامیہ نے بھی اس امن معاہدے پر اپنی باقاعدہ آمادگی کااظہار کردیا ہرفریق کی جوانب سے گرفتار قیدیوں کی رہائی کا معاملہ بھی طے پا گیا لیکن اس کے باوجود افغانستان میں جاری19 برس کی اس بے مقصد جنگ کے خاتمہ پر ’’نئی دہلی کو باقاعدہ دل کا دورہ پڑگیا ہے‘‘ اْس کی دیرینہ کوشش تو یہی تھی کہ افغانستان میں مسلمانوں کا لہو بہنا کبھی بند نہ ہو کوشش تو نئی دہلی نے بہت کی کسی طرح سے پاکستان اور افغانستان کے بارڈر پر امریکا یہ جنگ لانے میں کامیاب ہوجائے, لیکنیہ کیسے ممکن تھا چین خاموش تماشائی بنا رہتا یا روس تک جنگی کشمکش کا دائرہ نہ پھیل جاتا؟ امریکیوں کو بخوبی اس کا ادراک تھا کچھ عرصہ قبل غالبا جولائی کا مہینہ تھا فلوریڈا میں امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے ہیڈکوارٹرمیں بریفنگ دیتے ہوئے کمانڈر جنرل جوزف ووٹل نے صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ’افغانستان میں پائیدار سیاسی حل کے لئے پاکستان کا تعاون انتہائی اہمیت کا حامل ہے بھارتی تربیت یافتہ افغان فورسزوہاں لڑتورہی ہیں مگر اْن کا شدید جانی نقصان ہورہا ہے، ایسے میں ہمیں افغانستان میں پیدا ہونے والے نقصانات کا ابھی سے اندازہ لگانا ہوگا‘‘ اْن ہی دنوں جوابی رد عمل دیتے ہوئے پاکستانی فوج کے ترجمان ادارے آ ئی ایس پی آر نے بجا طوریہ باور کرادیا کہ ’’پاکستان اپنے پڑوسی افغانستان میں امن کا واقعی حقیقی متمنی ہے اس ضمن میں تمام فریقوں کے ساتھ شروع سے پاکستان مکمل تعاون کرتا رہا ہے اورپاکستان کا یہ تعاون جاری رہے گا کوئی ذرا بتائے توسہی، کہاں ہے افغان ایشو میں ’’مہاشے مودی جی؟‘‘جیسے یقینا یہ جان کر عجب سی کھلبھلی ضرور ہورہی ہوگی کہ ’’امریکا طالبان امن مذاکرات‘‘میں چین کا بھی کوئی بڑا اہم کردار ہے؟ جی ہاں چین کا کردار ضرورہے، افغان عوام کو امن سے مایوس کرنے والوں کو کل بھی اسی طرح سے منہ کی کھانی پڑی تھی افغان عوام یقیناعلاقائی امن واستحکام کے علاوہ خطہ میں چین اور پاکستان کے مابین ہونے والے تاریخ سازمیگا راہداری منصوبہ سے مستفید ہونا چاہئیں گے جیسے پاکستان افغانستان کا پڑوسی ہے ویسے ہی افغانستان کی سرحدیں ایران،ترکمانستان،ازبکستان،تاجکستان سے ملتی ہیں کی تاجکستان کی سرحد چین سے ملتی ہے چین ایشیا کا بڑاہم اورتجارتی اعتبار سے وسیع ترین ممکنات سے بھرپور ملک ہے، جو دنیا کی سپرطاقتوں میں شمار ہوتا ہے اب جبکہ عبرتناک شکست خوردہ امریکی مہم جوئی اپنے بدترین انجام کو پہنچ چکی امریکیوں نے بوریا بستر باندھ لیا ہے تو افغانستان کے عوام نے تو اب اپنی فلاح وبہبود اور سماجی ومعاشی ترقی کے لئے سرجوڑ کر بیٹھنا ہے یہ خالص افغانی زعماوں کا فریضہ ہے جس میں کوئی غیر افغانی کودخل دینے کا کیا حق ہے؟ معزز افغانی زعماء اس قومی وملی فریضہ کو ادا کرنے کی بھرپور قائدانہ مہارت اور صلاحیت رکھتے ہیں اْنہیں علاقائی سطح پر ہونے والی سیاسی وسماجی اورمعاشی تبدیلیوں کا فہم بھی اور شعور بھی ہے ،وہ جانتے ہیں کہ افغانستان کے امن کے لئے متحرک علاقائی ممالک میں کس کا کیا کردار رہا ازبکستان سے ملی چین کی سرحد افغانستان سے دور نہیں ’’پاکستان چین راہداری منصوبہ‘‘جہاں ازبکستان کے لئے قابل قبول ہے وہاں افغانستان کے عوام بھی اس عظیم منصوبے سے مستفید ہونگے، افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحد 2,646 کلومیٹرملتی ہے، جبکہ افغانستان کی جغرافیائی سرحد 5529 کلومیٹر لمبی ہے مطلب تقریبا 50 فی صد افغانستان کی سرحد پاکستان کے ساتھ ساتھ جڑی ہوئی ہے ازبکوں کے چینوں کے ساتھ صدیوں کے تعلقات ایسے میں عوامی جمہوریہ چین افغانستان کی ترقی،امن وخوشحالی سے علیحدہ اگر کوئی سمجھتا ہے تو وہ احمقوں کی دنیا کا باسی ہے امریکیوں کے افغانستان سے نکلتے ہی افغانیوں کا بنیادی حق ہے وہ اس منصوبے میں شامل ہوںافغان امن معاہدے کی عالمی تگ ودو میں چین کاذمہ دارامہ کردار کم نہیں، جسے افغان زعما برابر تسلیم کرتے ہیں چین کا پاکستان کے ساتھ ہمیشہ سے یہی باہمی مکالمہ رہا کہ افغانستان کا حقیقی امن علاقائی ترقیاتی میگا منصوبوں کی تکمیل کے لئے ہی نہیں بلکہ افغان عوام کی نئی نسل کوانسانی ترقی سے برابر لطف اندوزہونے کا بہترین وقت ہے دیکھا یہی جارہا ہے کہ امریکی کٹھ پتلی عناصرجن میں بھارت بہت نمایاں وہ سبھی مل کرافغان امن معاہدے کی راہوں میں بلاوجہ کے تاخیری حربے استعمال کرنے کا سبب بن رہے ہیں را اور این ڈی ایس اْن امریکی کٹھ پتلیوں میں سرفہرست‘ جب تک امریکی اوربھارتی عناصر افغانستان کی سرزمین نہیں چھوڑیں گے غیرملکی عسکریت پسند گروہ داعش کا خاتمہ نہیں ہوگا ،گزشتہ دنوں کابل میں سکھوں کے گوردوارے پر داعش کے حملے نے ثابت کردیا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را اور این ڈی ایس کی مشترکہ دہشت گردی نے افغانستان کو ایک بار پھرسے جنونی فرقہ واریت کی شکل دینے کی ناکام کوشش کی ‘ لیکن امارات اسلامیہ افغانستان کے ذمہ داروں زعماوں نے افغانستان کے صوبہ کنڑ اورننگرہار میں داعش کے بدنام عسکریت پسندوں کا سرکچل کر اْن کے انسانیت کش جرائم کی عبرتناک سزادیدی کنڑ اور ننگرہار سے نکال باہر کیا افغان عوام کو پْرامید کیا وہ مایوس نہ ہوں کیونکہ امارت اسلامیہ اورامریکہ کے مابین جارحیت کے خاتمے کے حوالے سے تاریخی معاہدہ طے پا چکا عوام میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی ‘ اور ملک بھر میں افغان عوام نے بھرپورخیرمقدم کیا ‘ اور افغانستان میں حقیقی امن کے لئے ایک بہترین اقدام کے طور پر اس عمل کو سراہا گیا ہے‘لہذا افغان قومی طبقات کو اب بیدار ہونے کی ضرورت ہے تا کہ اپنی سرزمین کے امن کو بھارتی اور امریکی پروپیگنڈے کے آلے کے طور پر استعمال کرنے والوں کا وہ خود راستہ روکیں ۔