جسٹس فائز کی نظرثانی درخواستیں منظور ایف بی آر کی کاروائی رپورٹ کالعدم

اسلام آباد (اعظم گِل) سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظرثانی درخواستیں منظور کر لیں۔ سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ہونے والی کارروائی کو ختم کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ سپریم کورٹ کے19 جون کے فیصلے کے نتیجے میں ایف بی آر میں ہونے والی کارروائی اور رپورٹ کالعدم تصور ہوگی۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ6 ججزکی اکثریت سے دیا۔ چھ ججز نے سرینا عیسیٰ کی نظرثانی درخواستوں کو تسلیم کر لیا۔ جبکہ 4 ججز نے مسترد کیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل  نے  کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے حق دعوی نہ ہونے کا سوال اٹھایا تھا۔ وفاقی حکومت کیس میں باضابطہ فریق ہے۔ عدالت نے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرکے جواب مانگا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں عدالتی فیصلے پر عملدرآمد ہو چکا ہے۔ عملدرآمد کے بعد فیصلہ واپس نہیں لیا جا سکتا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کوکسی بھی مواد کا جائزہ لینے سے نہیں روکا جا سکتا۔ سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کے کام میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ یہ بھی موقف اپنایا گیا کہ وفاقی حکومت نے ریفرنس کالعدم ہونے پر نظرثانی نہیں کی۔ عدالت نے ریفرنس قانونی نقاط میں بے احتیاطی برتنے پر کالعدم کیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا سرینا عیسیٰ کو وضاحت کا موقع دیئے بغیر ریفرنس دائر کیا گیا۔ عدالت کیس ایف بی آر کو نہ بھجواتی تو وفاقی حکومت نظر ثانی اپیل دائر کرتی۔ اس لئے حکومت کیس ایف بی آر کو بھجوانے کا دفاع کرنے میں حق بجانب ہے۔ وکیل نے کہا کہ  آرٹیکل211  کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی چیلنج نہیں ہو سکتی۔ جسٹس یحی خان آفریدی نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ پہلے آپکا موقف تھا کہ جوڈیشل کونسل کو ہدایات دی جا سکتی ہیں۔ کیا آپکا موقف نظر ثانی درخواستوں کے حق میں نہیں جاتا؟، جس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا پہلے دن سے موقف ہے۔ جوڈیشل کونسل کو عدالت نے کوئی ہدایت نہیں دی۔ سپریم کورٹ صرف غیر معمولی حالات میں جوڈیشل کونسل میں مداخلت کر سکتی ہے۔ افتخار چوہدری کو بطور چیف جسٹس معطل کیا گیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کیس کے حقائق افتخار چوہدری کیس سے مختلف ہیں۔ عدالت نے مجھ سے تین سوالات کے جواب مانگے تھے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کے موقف پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا عامر رحمان میرے ٹیکس یا فنانشل ایڈوائزر نہیں ہیں۔ حکومتی وکیل سے ایسا سوال نہیں پوچھنا چاہیے تھا۔ جان بوجھ کر نیا مواد عدالتی کارروائی کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ ایسے سوالات سے آپ کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ کیا جسٹس عمر عطا بندیال آپ شکایت کنندہ ہیں؟۔ ایسے سوالات سے آپ کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال اپنے حلف کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ ایف بی آر کی رپورٹ نظرثانی درخواستوں کے بعد آئی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظر میں انکی اہلیہ کی دستاویزات کا جائزہ لینا غلط ہے۔ عدالت کو شاید ایک فریق کو سن کر اٹھ جانا چاہیے جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاجسٹس عمر عطابندیال حکومتی وکیل کے منہ میں الفاظ ڈال رہے ہیں۔ جسٹس مقبول باقر نے کہاایف بی آر رپورٹ پر اگر ہم ابزرویشن دیں تو کیا جوڈیشل کونسل پر اثر انداز نہیں ہو گا۔ جسٹس فائز عیسیٰ ایف بی آر کارروائی کو بدنیتی قرار دیکر نظر ثانی کی بنیاد بنارہے ہیں۔ عامر رحمان نے کہا جو دستاویزات نظر ثانی کی بنیاد ہے۔ اس پر دلائل دینا میرا حق ہے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا ایف بی ار نے عدالتی حکم پر ہی تحقیقات کی تھی۔ شاید پھر سے کوشش ہو رہی کہ وقت ضائع کیا جائے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا عدالتی سوالات کے جوابات دے رہا ہوں اور کہا جارہا ہے کہ وقت ضائع کر رہا ہوں، جن دستاویزات کا حوالہ دے رہا ہوں وہ الفاظ ایف بی آر رپورٹ نہیں۔ رولز کے مطابق سپریم کورٹ کو سوالات پوچھنے کا اختیار ہے۔ سپریم کورٹ بعض حقائق کی پڑتال کے لیے بیان حلفی بھی مانگ سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے تین سوالات ہی سارے کیس کی بنیاد ہیں۔ جسٹس فائز عیسی جواب دیں تو تنازعہ حل ہو سکتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے عدالتی کارروائی پر دوبارہ کہا کہ کیا مجھے ٹیکس کمشنر نے طلب کر رکھا ہے جس پر گفتگو ہورہی ہے۔ کیا عدالت اِنکم ٹیکس آفیسر ہے؟۔ ایف بی آر رپورٹ پر گفتگو کر کے وقت ضائع کیا جارہا ہے۔ کوڈ آف کنڈکٹ کے تحت کیسز کو جلد نمٹانا بھی ججز کی ذمہ داری ہے۔ دوران دلائل جسٹس قاضی فائز عیسی کی جانب سے مداخلت پر جسٹس منظور ملک نے کہاقاضی صاحب آپکو اور اردو اور انگلش میں کئی بار بیٹھنے کا کہہ چکا ہوں۔ اب لگتا ہے آپکو پنجابی میں سمجھانا پڑیگا۔ قاضی صاحب مہربانی کریں اور بیٹھ جائیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہایہ بھی دیکھنا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی سے متعلق حقائق کب سامنے آئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے متعلق حقائق 2019 ء میں سامنے آئے تھے، حقائق سامنے آنے سے پہلے ایف بی آر کیسے کارروائی کر سکتا تھا۔ حقائق سامنے آنے پر سوال اٹھا کہ جائیدادوں پر فنڈنگ کیسے ہوئی۔ عامر رحمان نے کہا سپریم کورٹ میں کیس ہونے کی وجہ سے ایف بی آر نے کچھ نہیں کیا۔ جسٹس قاضی فائز نے کہایہ کیسے اخذ کیا گیا کہ ایف بی آر سپریم کورٹ کی وجہ سے کارروائی نہیں کر رہا تھا۔ عامر رحمان نے کہا یہ بھی تو فرض کیا جا رہا ہے یہ ایف بی آر کارروائی نہیں کرے گا۔ دوران سماعت جسٹس فائز عیسیٰ کی جانب سے متعدد بار مداخلت کرنے جسٹس منظور ملک نے کہا قاضی صاحب آپکے بولنے سے وفاقی حکومت کے وکیل ڈر جاتے ہیں،کیا حکومتی وکیل آپ سے لکھوایا کریں کہ کیا دلائل دینے ہیں کیا نہیں؟۔ جس پر جسٹس قاضی فائز نے کہاعدالت کو ایک لطیفہ سنانا چاہتا ہوں، جسٹس منظور ملک نے کہافی الحال بیٹھ جائیں لطیفہ بعد میں سنیں گے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا معزز جج اور عدالتی ساکھ کا سوال ہے۔ ادارے کی ساکھ کا تقاضا ہے کہ اس مسئلے کو حل کیا جائے۔ جسٹس فائز عیسی کہتے ہیں وہ اہلیہ کے اثاثوں کے جوابدہ نہیں، جس پر سرینا عیسی نے موقف اپنایا کہ جسٹس عمر عطا بندیال  اور جسٹس منیب اختر احتساب کے لیے بہت کوشاں ہیں، دونوں ججز اپنی اور اپنی بیگمات کے اثاثے پبلک کریں، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسی نے 3 سوالات کے جواب دینے سے انکار کیا تھا، جسٹس فائز عیسی نے کہامیں نے انکار نہیں کیا سوالات پر اعتراض اٹھایا ہے۔ میرے منہ میں بات ڈالنے کی کوشش نہ کی جائے۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکیا سپریم جوڈیشل کونسل کو ذرائع آمدن پوچھنے سے روکا گیا ہے وکیل  نے کہا سپریم کورٹ نے جوڈیشل کونسل کا شوکاز نوٹس کالعدم نہیں دیا۔ جسٹس عمر عطا نے کہا کہ عدالت کے سات ججز نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی قابل احتساب ہیں ہم میں سے کوئی اثاثوں کی وضاحت نہیں کرسکے گا اس کا بھی احتساب ہوگا، جس کے بعد عدالت مختصر وقت کیلئے ملتوی کردی گئی دو گھنٹے کی مشاورت کے بعد عدالت دوبارہ بیٹھی اور جسٹس عمر عطا بندیال نے عدالتی مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کی نظر ثانی درخواست کو تسلیم اور 5 نے مسترد کیا جسٹس یحی خان آفریدی نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا کہ جسٹس فائز عیسی کی نظر ثانی درخواست کے علاوہ تمام نظرثانی درخواستیں منظور کرلیں اور سپریم کورٹ کے اصل فیصلے کے تناظر میں میں ہونے والی تمام کارروائی کالعدم قرار دی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ کے دیگر پانچ ججز نے بھی ایف بی آر، سپریم جوڈیشل کونسل کی تمام کارروائی کو ختم کردیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی محمد امین نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا جبکہ جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور ملک، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس یحی خان آفریدی اکثریتی فیصلے میں شامل ہیں۔ جسٹس منظور ملک اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے معاملہ ایف بی آر کو بھجوانے سے متعلق اپنا فیصلہ تبدیل کیا۔ بنچ میں شامل ہونے والے نئے جج جسٹس امین الدین خان نے بھی نظرثانی درخواستوں کے حق میں فیصلہ دیا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...