اُن دنوں مولانا کوثر نیازی مذہبی امور کے وزیر تھے۔ یہ بھی اس وفد میں شامل ہو گئے۔ گو اپنا ٹکٹ خود خریدا روضہ رسولؐ پر حاضری کے وقت جو کیفیت طاری ہوئی اس کا اظہار بڑے مؤثر انداز میں کیا ہے۔ کتاب کے دو ابواب خاکوں اورصحافتی لطائف پرمشتمل ہیں۔ جن لوگوں کے خاکے لکھے ہیں وہ بھی کبھی کوچہ صحافت میں برہنہ پا داخل ہوئے تھے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے کیا سے کیا ہو گئے اور قاضی صاحب حیراں حیراں وقت کا اُبھار دیکھتے رہے۔ مادی اعتبار سے تو یہ اتنی ترقی نہ کر سکے لیکن راست گوئی، راست روی اور اخلاقات میں ان کے قدم کہیں آگے بڑھتے نظر آتے ہیں۔ نسیہ و نقدِ دو عالم کی حقیقت تو اکثر کو معلوم ہوتی ہے لیکن وہ صرف لمحۂ موجود پر یقین رکھتے ہیں۔
جانتا ہوں ثوابِ طاعت وزہد
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی
ہر پیشے سے منسوب کچھ نہ کچھ لطائف ہوتے ہیں۔ گفتنی ناگفتنی! قاضی صاحب نے صرف ان کا ذکر کیا ہے جو ان سے یا ان کی موجودگی میں سرزد ہوئے۔ گو ان میں وہ مولوی مدن والی بات نہیں ہے لیکن لطیفہ تو پھر لطیفہ ہی ہوتا ہے۔ شاعروں کے متعلق بھی بے شمار لطائف مشہور ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شاعر اپنے سوا کسی دوسرے کو شاعر مانتا ہی نہیں۔ اس سلسلے میں منیر نیازی مرحوم نے خوب نام کمایا۔ ان کی اور قتیل شفائی کی چشمک خاصی مشہور تھی۔ ہر مشاعرے میں قتیل لُقمہ دے جاتے۔ جواباً انہیں پوری غزل قتیل صاحب کی نذر کرنا پڑتی! حفیظ جالندھری اور ضمیر جعفری صاحب کی نوک جھونک بھی خاصی مشہور ہوئی۔
تیری کرنیلی بھی گئی ، میری کپتانی بھی گئی
دو بادشاہ ایک اقلیم میں تو رہ سکتے ہیں لیکن دو شاعر ایک تنگنائے غزل میں نہیں سما سکتے۔ میرے اپنے پیشے کے متعلق بھی بے شمار لطائف مشہور ہیں۔ کہتے ہیں ایک انگریز ڈپٹی کمشنر دورے پر گیا تو پولیس نے ایک بدنام ڈاکو پکڑ کر ان کے حضور پیش کیا۔ فرطِ جذبات میں ڈی سی بہادر نے اسے گولی مار دی۔ ادھر ڈاکو کا جسم سرد ہوا تو اُدھر صاحب کو تشویش لاحق ہوئی کہ اُن سے ایک بہت بڑا جرم سرزد ہو گیا ہے۔ ان دنوں قانون بہرحال قانون تھا ، موم کی ناک نہیں ہوا کرتا تھا۔ ڈی سی نے سول سرجن کو بلایا اوراسے کہاکہ وہ اپنی میڈیکو لیگل رپورٹ میں لکھ دےHe Died of Choleraڈاکٹر نے ایک نظر ڈاکو کے مردہ جسم پر ڈالی اور دوسری سے صاحب بہادر کو دیکھتے ہوئے بولا، ’’حضور اس کے جسم سے اُٹھتی ہوئی موجِ خوں آپ کے دستِ غیض تک آ پہنچی ہے۔ آپ قتلِ عمد کے مرتکب ہوئے ہیں۔ میں کس طرح غلط رپورٹ لکھ دوں؟‘‘ اس پرانگریز نے ایک فیصلہ کن جھٹکے سے میز کی دراز کھولی۔ وہی پستول ڈاکٹر کی کنپٹی پر رکھتے ہوئے بولا :
Write, He died of Cholera, otherwise you are also going to have Cholera
اس پر ایک مجبور ڈاکٹر نے اپنی میڈیکو لیگل رپورٹ میں لکھا،’’ہیضے کا موذی مرض ملزم کے لیے جاں لیوا ثابت ہوا ہے۔‘‘
جمیل اطہر قاضی صاحب نے بہت کچھ لکھا ہے۔ ان کی کتابیں منصہ شہود پر آ چکی ہیں۔ یہ کتاب سوانح عمریوں میں گرانقدراضافہ ہے۔ انہوں نے بڑی سلاست کے ساتھ داستانِ حیات قلمبند کی ہے۔ حوادث ، مشکلات اور تجربات کی پُل صراط سے گزر کر وہ اس مقام تک پہنچے ہیں۔ انہوں نے داستانِ حیات بلا کم و کاست بیان کر دی ہے۔ کسی قسم کے احساسِ کمتری یا مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہوئے۔
یہ ایک اعتبار سے ملکی تاریخ بھی ہے، پاکستانیات میں منفرد اضافہ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایسی دستاویز ہے جسے نظرانداز کر کے اُن اصحاب کے لیے آگے بڑھنا مشکل ہو گا جو ادب ، صحافت ، ثقافت اور قومی زندگی میں سچ کا بول بالا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس سادہ اورپُراثر تحریر کے پڑھنے سے اذہان کو جِلا اور روح کو بالیدگی ملتی ہے۔ اس قدر عمدہ اور پُراثر تحریر پر قاضی صاحب نہ صرف مبارک باد بلکہ خراج کے بھی مستحق ہیں۔ (ختم شد)