خوشی اور  افسوس…

Apr 27, 2021

شاہد لطیف

ایک دو روز پہلے  انٹر نیٹ پر  ایک خبر میری نظر سے گزری۔دل خوش ہو گیا۔خبر یہ تھی کہ جیکب آباد، سندھ سے تعلق رکھنے والی ’ منیشا روپیتا ‘ ہندو برادری سے تعلق رکھنے  والی پاکستان کی پہلی خاتون ہیں جو گریڈ 17 کی ڈپٹی سپریٹنڈنٹ پولیس ( ڈی ایس پی) منتخب ہوئیں۔مذکورہ عہدے کے لئے سندھ پبلک سروس کمیشن کے تحریری امتحان کے بعد کامیاب امیدواروں کے انٹرویو  17  دسمبر  2020  سے  06  مارچ   2021  کے دوران منعقد ہوئے ۔اِن میں کامیاب ہونے والے خوش نصیبوں کی فہرست میں منیشا  روپیتا کا نام شامل تھا۔ سندھ پولیس میں اس سے پہلے اندرونِ سندھ سے ہندو برادری کی ’  پِشیا کُماری ‘  2019  میں پاکستان کی اولین  اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی)  منتخب ہوئی تھیں۔اُس وقت انہوں نے بتایا تھا کہ جب انہیں پولیس فورس میں جانے کا خیال آیا تو اُسی سال انہوں نے مقابلے کے امتحان میں حصہ لیا۔ مقامِ شکر ہے کہ اچھے نمبروں سے  امتحان پاس کیا۔بلا شبہ  پِشیا کُماری کا پولیس میں آنا  بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا۔ اُن کا کہنا تھا : ’’ اب  ہندو برادری کی بچیاں پولیس کے علاوہ  برّی،  بحری  اور فضائی افواج میں جانے کے لئے راغِب ہوں گی ‘‘۔ جب ہندو برادری کی فاضل خواتین کا ذکر ہو رہا ہے تو  پاکستان کی پہلی ہندو خاتون سِول جج محترمہ ’ کنول راٹھی ‘ کا ذکر لازمی آئے گا۔یہ  2015 میں منتخب ہوئی تھیں۔ اِن کا تعلق بھی عُمر کوٹ سے تھا اور یہ میر پور خاص میں سِول جج ہوئیں۔ اس کے بعد 2019  میں محترمہ ’ ثمن بودانی ‘ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی دوسری سول جج اور اِن کے ساتھ ساتھ ایک اور  ہندو خاتون ’ ڈائیانا کُماری ‘ بھی سول جج منتخب ہوئیں۔بات ہو رہی تھی نو منتخب شدہ ڈی ایس پی ’ منیشا روپیتا ‘ صاحبہ کی۔اِن کا یہ کہنا بجا طور پر درست ہے : ’’ میرا ڈی ایس پی کا انتخاب  ہماری برادری کی لڑکیوں کے لئے ایک مثال ہے ۔ان میں اعتماد آئے گا اور وہ بھی پڑھ لکھ کر اعلیٰ حکومتی عہدے حاصل کر سکیں گی ‘‘۔ہمارے لئے اس خبر میں خوشی کا پہلو یہ ہے کہ ہندو برادری تعداد میں کم ہے نیز  ان کی زیادہ آبادی سندھ کے دیہی اور پسماندہ علاقوں میں آباد ہے۔ اِس صورتِ حال میں اِس برادری کا کوئی فرد خصوصاََ  خواتین ،  تعلیم حاصل کر کے حکومتی اداروں میں شمولیت اختیار کریں تو واقعی یہ ایک خوش کُن خبر ہے کہ سندھ کے پسماندہ علاقوں میں بھی تعلیم کا شعور بیدار ہو رہا ہے۔ آج کے کالم میں اس خبر کو بنیاد بنا نے کا ایک مقصد ہے۔پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا۔ ہمارے دین میں کسی بھی اسلامی مملکت میں رہنے والے باشندوں کو دنیاوی اعتبار سے برابری حاصل ہے۔البتہ غیر مسلم کو کسی مسلمان کے برابر دنیاوی حقوق حاصل کرنے کے لئے ایک ٹیکس دینا پڑتا ہے جسے جزیہ کہتے ہیں۔پھر دینی یا مذہبی اعتبار سے غیر مسلموں کو اسلامی ریاست میں اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی بھی آزادی حاصل ہے۔مگر حکومتی سطح پر اُن کے مذہب کی ترویج ممنوع ہے۔یہی چیز آج کے کالم کا محرک ہے۔ دراصل گوگل میں ’ انڈیا ٹو ڈے ‘ کی ایک خبر شائع ہوئی ہے جس کے مطابق سعودی عرب کے سرکاری نصاب میں ’ مہابھارت ‘ اور ’ رامائن ‘ کو شامل کردیا گیا ہے۔ویسے گوگل کے علاوہ اس خبر کا کوئی اور مصدقہ ذریعہ نہیں۔اگر یہ ’  انڈیا ٹو ڈے ‘ کی ’ دُرفنِطنی ‘ ہے تو اس سے درگزر کیا جا سکتا ہے ۔ غیر مسلموں خصوصاََ مشرکین کے لئے قرآن مجید کی ناپسندیدہ ترین سورت ( نعوذ باللہ ) سورۃ التوبہ ہے۔جس کا آغاز ہی مشرکوں سے بیزاری اور انہیں حرمِ پاک سے نکل جانے کے حکم سے ہوتا ہے۔اسی سورت کی آیت نمبر 23   میں مسلمانوں کو سختی سے منع کیا گیا ہے کہ ’’ اپنے باپ دادا ‘‘ اور ’’ اپنے بھائیوں ‘‘ کو بھی دوست نہ بنائو اگر وہ کفر پر ہیں تو وہ جو ’’ برادری ‘‘ یا ’’ قبیلے ‘‘ کے بھی نہیں … انہیں کیسے قریب کیا جا سکتا ہے ؟ علاوہ ازیں اگر مشرکوں کو  جِسمانی طور پر حرمین کے علاقے میں داخلے پر پابندی ہے تو ان کے نظریات پر پابندی بدرجہ اتم ضروری ہے کیوں کہ ان کا شِرک نظریاتی ہی تو ہے۔ مشرک کو قرآن میں ’’  نَجِس ‘‘ کہا گیا ہے۔یہ جسمانی نجاست نہیں بلکہ نظریاتی نجاست ہے۔لہٰذا رامائن اور مہابھارت کو نصاب کا حصہ بنانے کا سو فی صد مطلب یہ ہے کہ ’’ اچھا بچُّو !! ہمیں جسمانی طور پر نہ آنے دو، لو !! دیکھ لو  !! ہم نے اپنے نظریات تو تم تک پہنچا ہی دئیے ‘‘جیسے سونیا گاندھی نے تکبر سے کہا تھا کہ ہم نے پاکستان کو ثقافتی محاذ پر شکست دے دی ہے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دنیاوی اعتبار سے غیر مسلموں کو ہر طرح کی ترقی کا حق حاصل ہے مگر دینِ اسلام کے مقابلے میں شرک کی ترویج خواہ کسی بھی نیت سے ہو ہر گز قابلِ قبول نہیں۔ کالم کا عنوان ’ خوشی اور افسوس… ‘ بھی اسی مناسبت سے رکھا گیا ۔

مزیدخبریں