پاکستان میں اگر امیر اور غریب کے درمیان خلیج کو سمجھناہے تو رواں ماہ کے شروع میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے UNDPکی پاکستان کی معیشت کے حوالہ سے رپورٹ کو پڑھنا ہو گا یاد رہے کہ یہ UNDPکی رپورٹ کسی پاکستانی سیاسی جماعت کے سوشل میڈیا گروپ کا کارنامہ نہیں ہے بلکہ اقوام متحدہ جیسے غیر جانبدار ادارے کی رپورٹ ہے جس کے مطابق پاکستان کی ٹوٹل قومی آمدنی کا چھ فیصد مطلب سترہ اعشارہ چار ارب ڈالرز جو پاکستانی روپیہ میں 2700ارب روپے بنتے ہیں سالانہ سب سڈی کی نظر ہو جاتے ہیں اور اس سب سڈی کا 80فیصد کارپوریٹ سیکٹر ،جاگیر داروں ،سرمایہ داروں اور سیاست دانوں کو جاتا ہے اور صرف 20فیصد کا قطرہ ہے جو غریب کے منہ میں گرتا ہے یہ سب سڈی اور رعائتیں کس کس اندازمیں امیر لوگوں تک پہنچ رہی ہیں یہ سوچ کر ہی رونا آتا ہے پاکستان کے وسائل سے اشرافیہ کس طرح فائدہ اٹھا رہی ہے اقوام متحدہ کی رپورٹ برملا اس کا اظہار کر رہی ہے امپورٹ ایکسپورٹ میں سب سڈی ،انرجی میں سب سڈی ،ٹیکسوں میں چھوٹ جیسے طریقوں سے جو فائدے ملتے ہیں UNDPتو صرف ان کی اپنی رپورٹ میں بتا رہی ہے اس کے علاوہ پاکستان میں جو چور دروازوں اور کرپشن سے ہماری اشرافیہ اور سیاسی اشرافیہ پیسہ بناتی ہے وہ کبھی گرفت میں آہی نہیں سکتا کیونکہ عوام کو دکھانے کیلئے صرف ڈرامے کئے جاتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے قومی وسائل سے استفادہ کرنے والے سامنے کی بجائے بیک ڈور سے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر رکھتے ہیں پاکستان میں یہ نظام اور یہ طرز حکمرانی چلتا رہاتو یہ طے ہے کہ ملک کا غریب طبقہ کبھی بھی معاشی طور پر اوپر نہیں آسکتا اب تو لالے پڑے ہوئے ہیں متوسط طبقے کو وہ کیسے اپنے آپ کو برقرار رکھ سکیں کیونکہ مہنگائی تو عنقریب انہیں نگلنے کیلئے ان کے پیچھے لگی ہوئی ہے ایک چیز خریدیں جب دوبارہ وہی چیز خریدیں تو وہ مہنگی ہو جاتی ہے پیاز ،ٹماٹر،لہسن جیسی سبزیاں اپنے سیزن کے دنوں میں 20سے25دن عوام کو سستی ملتی ہیں اور پھر وہی مہنگائی کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور سب سے افسوناک بات یہ ہے کہ حکمران سیاسی اشرافیہ اشیاء ضروریات کی قیمتوں کو کم تو خاک کریں گے وہ اسے کہی منجمد کرنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے اقوام متحدہ کے ادارے UNDPکی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں پارلیمنٹ سمیت جتنے بھی بااختیار ادارے ہیں جو مراعات کو نیچے غریب تک پہنچا سکتے ہیں وہ آپس میں آکٹو پس کی ٹانگوں کی طرح آپس میں جڑے ہوئے ہیں وہ ایک ہاتھ سے مراعات دیتے ہیں دوسرے ہاتھ سے خود ہی لے لیتے ہیں اور ہاتھ سے دینے اور دوسرے ہاتھ سے لینے کے درمیان اگر کوئی رعائت گر جائے تو وہ غریب کی جھولی میں چلی جاتی ہے اب اس رپورٹ سے ہٹ کر ہم دیکھیں تو صاف حکمران اشرافیہ کی بے حسی نظر آتی ہے وہ ہے دستیاب وسائل پر ہاتھ صاف کرنالیکن مجموعی قومی آمدنی میں اضافہ کی طرف نہ جاناکئی دہائیوں سے پاکستان اس طرح چل رہاہے کہ ملک کی اشرافیہ جس کو سیاسی اشرافیہ لیڈ کرتی ہے ملک پر قرضے چڑھا کر اپناحصہ جیب میں ڈالتی رہتی ہے لیکن ملک کی GDPگروتھ کیلئے کوئی انقلابی قدم نہیں اٹھاتی کیونکہ اس سے ملک میں غربت میں کمی آئے گی جو ملک کی سیاسی اشرافیہ کو سوٹ نہیں کرتی پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کبھی بھی ملک میں غربت کم کرنے کی کوشش نہیں کرے گی اس سے ان کی سیاست ختم ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں آٹا ،چینی پر سیاست ہو رہی ہے اگر عوام کچھ پیسے والے ہو گئے تو بہتر علاج اور بہتر تعلیم کا مطالبہ کریں گے جبکہ پاکستان کی اشرافیہ بہتر علاج اور بہتر تعلیم کو صرف اپنا حق سمجھتی ہے ۔