اسلام آباد (خبر نگار+ نوائے وقت رپورٹ) سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویزا شرف کی زیرصدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے توہین پارلیمنٹ کا معاملہ استحقاق کمیٹی میں اٹھانے کا مطالبہ کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ اب لکیر کھینچ دی جائے کہ کسی وزیراعظم کو توہین پر فارغ نہیں ہونے دیں گے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ عدالتی حکم اپنی جگہ مگر آئین سے انحراف کر کے فنڈز جاری نہیں کر سکتے۔ اجلاس میں وفاقی وزیر برجیس طاہر نے کہا کہ ہمیں استحقاق کمیٹی میں کسی کو بھی بلانے کا اختیار ہے، ہم نہیں چاہتے کہ ججوں کو تحریک استحقاق کمیٹی میں بلائیں۔ ہم نے سابق صدر فاروق لغاری کو بھی بلایا تھا۔ ہماری قائمہ کمیٹی خزانہ کی سفارشات تھیں کہ فنڈز نہ دیئے جائیں۔ جب ایوان نے قرارداد اور قانون منظور کیا ہے، جو اس قرارداد یا قانون کو نہیں مانتا اسے توہین پارلیمنٹ کے تحت بلایا جاسکتا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھیں یا ہمیں کہہ دیں ہم استعفے دے کر گھر چلے جائیں۔ ہم جو قانون سازی کرتے ہیں وہ اڑا کر رکھ دیتے ہیں۔ قرارداد اور قانون منظور کرنے کا اختیار صرف اس ایوان کو ہے۔ اس تین رکنی بینچ نے توہین عدالت و پارلیمان دونوں کی ہیں۔ ہم اس پارلیمان کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت اجلاس میں سوات دھماکے میں شہید ہونے والوں، حیات اللہ خان، سابق سینیٹر انور بیگ، سابق سپیکر بلوچستان اسمبلی سید ظہور حسین کھوسہ اور ملک میں دیگر واقعات میں شہید ہونے والوں کے لیے دعا کی گئی۔ بدھ کے روز قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی سربراہی میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں سوات دھماکے میں شہید ہونے والے حیات اللہ خان، سابق سینیٹر انور بیگ، سابق سپیکر بلوچستان اسمبلی، ملک میں دیگر واقعات میں شہید ہونے والوں کے لیے دعا کی گئی۔ دعا رکن اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے کروائی۔ وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں کہا گیا کہ جب مالیاتی بل پر ایوان نے منظوری نہیں دی تو اس کا مطلب ہے کہ وزیر اعظم ایوان کی اکثریت کھو چکے ہیں۔ سپریم کورٹ کا یہ کہنا درست نہیں۔ وزیر اعظم کو اب بھی اکثریت حاصل ہے۔ سپریم کورٹ نے مالیاتی طریقہ کار کو نظر انداز کرتے ہوئے فنڈز جاری کرنے کا حکم دیا۔ ایوان اپنے پہلے کئے ہوئے فیصلے کی توثیق کردے۔ آئین پاکستان نے مالیاتی اختیارات اس ایوان کو دیئے ہوئے ہیں۔ یہ اختیارات کسی ادارے اور وفاقی کابینہ کے پاس نہیں ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ لاہور اور پشاور ہائی کورٹس میں دو صوبوں میں انتخابات کا معاملہ زیر غور تھا۔ ایک بینچ میں دو ججوں نے ازخود نوٹس لینے کا کہا۔ پانچ رکنی بینچ بنا۔ کہا گیا کہ تین دو سے فیصلہ آیا۔ میں نے اٹارنی جنرل سے آئینی مشاورت کی۔ اٹارنی جنرل نے بھی کہا کہ چار تین سے درخواستیں مسترد ہوگئی ہیں۔ ایک بل پارلیمان میں فنڈز کے اجرا کے حوالے سے آیا۔ پارلیمان نے اکیس ارب روپے کا بل قومی اسمبلی میں منظوری کے لئے رکھا جسے ایوان نے مسترد کردیا گیا۔ سپریم کورٹ نے دوبارہ فنڈز جاری کرنے کا حکم دیا۔ پھر پارلیمان نے فنڈز دینے سے انکار کردیا۔ اس ایوان کو حق حاصل ہے کہ وہ فنڈز کی منظوری دے یا نہ دے۔ وفاقی وزیر برائے خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ آئین کے مطابق مالیاتی امور کی منظوری قومی اسمبلی ایوان اور اس کے ارکان کا استحقاق ہے۔ ایوان کو بائی پاس کرکے سٹیٹ بینک کو فنڈز جاری کرنے کا حکم دینا اس ایوان کا استحقاق مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ بتایا جائے کہ مردم شماری پر پینتیس ارب روپے کیوں خرچ کئے جارہے ہیں۔ کیسے ہوسکتا ہے کہ دو صوبائی حکومتیں موجود ہوں اور باقی میں الیکشن ہورہے ہوں۔ حکومت اور اپوزیشن آج بھی بیٹھیں اور مسئلے کا حل نکالیں۔ پاکستان کو ان حالات میں موجودہ حکومت نے نہیں ڈالا۔ اگر ایک دن میں الیکشن ہوجاتے ہیں تو کون سی قیامت آجائے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں کیا۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا کہ تریسٹھ اے پر وہ فیصلہ دیا گیا جس کی مثال نہی ملتی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کے رہنما و پارلیمانی سیکرٹری آغا رفیع اللہ نے کہا کہ یہ سوموٹو نہیں سسو موٹو تھا، اس آڈیو کا فورنزک کرایا جائے، گھر میں بیٹھی خواتین اس ملک کی سپریم ادارے کو ڈکٹیٹ کرتی ہیں، ملک آئین اور قانون کی بات نہیں ان کی منشا پر چل رہا ہے۔ بات آئین اور قانون سے آگے نکل چکی۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے ماننے والے نہیں۔ آڈیولیکس کی رپورٹ ایوان میں پیش کی جائے، سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجا جائے ، سفید پوش بلڈنگ میں بیٹھا شخص چاہتا ہے ملک میں انارکی ہو۔ اس کی ہمت نہیں کے اس ایوان کو ڈکٹیٹ کرے۔ وفاقی وزیر برائے خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کو آئین کی تشریح کرنی چاہئے نہ کہ لکھنے کا اختیار دیا ہے۔ ہم ججوں کو آئین سمجھانے کے لئے رضا ربانی جیسے لوگوں پر مشتمل کمیٹی بھیج سکتے ہیں۔ تازہ ترین سپریم کورٹ کے فیصلے میں پارلیمان کی توہین کی گئی ہے۔ پارلیمان کے منی بل پر ووٹ کو بھول جانے کا سپریم کورٹ کیسے کہہ سکتی ہے۔ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں کہ آئین کی خلاف ورزی کریں۔ مالیاتی بل کی منظوری پارلیمان کے سوا کسی کا اختیار نہیں۔ اگر عدلیہ ہمارے ایوان کی توہین کرے گی تو کیا ہم توہین پارلیمنٹ پر خاموش ہوجائیں۔ اس توہین پارلیمان کا معاملہ کو تحریک استحقاق کمیٹی میں اٹھایا جانا چاہئے۔ جب وزیر اعظم کا مذاق اڑایا جاتا ہے تو یہ پارلیمان کی توہین ہے۔ ہم نے بہت برداشت کرلیا اور بھی برداشت کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں اس ایوان میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا نوے روز کی خلاف ورزی پہلی مرتبہ ہورہی ہے۔ کیا بلدیاتی انتخابات تاخیر سے نہیں ہوتے رہے۔ کیا عام الیکشن نوے روز کے بعد نہیں ہوتے رہے۔ اب ہی کیوں نوے روز پر زور دیا جارہا ہے۔ ہم نوے روز سمیت کسی بھی آرٹیکل کی خلاف ورزی نہیں چاہتے۔ سپریم کورٹ کا اقلیتی فیصلہ کیسے ہم پر مسلط کیا جارہا ہے۔ جب وزیر اعظم کا مذاق اڑایا جاتا ہے تو یہ پارلیمان کی توہین ہے۔ ہم نے بہت برداشت کرلیا اور بھی برداشت کریں گے۔ ہمیں زمین پر ایک لکیر کھینچنا ہوگی کہ ہم وزیر اعظم اور پارلیمان کی توہین برداشت نہیں کریں گے۔ ایک بینچ میں بیٹھ کر وزیر اعظم کے پاس اکثریت کی بات کرنا کیا درست ہے۔ جب ہم قرارداد منظور کررہے تھے تو ہم وزیر اعظم پر اعتماد کا اظہار کررہے تھے۔ عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے تو تین افراد کے خلاف کیا گیا ہے۔ اگر عدلیہ نوے روز کے اندر الیکشن کا کہا جاتا تو شائد ہم مان جاتے۔ تریسٹھ اے کے فیصلے سے لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ آئین میں تو لکھا ہے کہ وزیر اعلی جب چاہے کہ اسمبلی توڑ دے، نوے روز میں الیکشن ہوجائیں مگر کیا کسی کے کہنے پر اسمبلی توڑنے کی آئین کہاں کہتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن ایک ہی روز پورے ملک میں ہوں۔ ہم اپنے اتحادیوں کو قائل کرسکتے ہیں کہ پارلیمان کے ذریعے مذاکرات ہوں۔ ہم عدلیہ کی پنچایت کے ذریعے مذاکرات کو نتیجہ خیز ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ تمام اداروں کے سربراہان ہوش کے ناخن لیں۔ اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے محسن داوڑ نے کہا ہے کہ چند ججز کو ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ لایا گیا۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو نظر انداز کیا گیا۔ اس پر ہمیں گلہ ہے۔ ہمیں نظر انداز کیا جارہا ہے۔ یہ میرا دعوی ہے کہ وہ آئین اور قانون کی لاج رکھیں گے۔ پارلیمنٹ کی توہین کا معاملہ ایوان کو کمیٹی آف دی ہول میں تبدیل کرے۔ وہاں اٹھایا جائے۔ بعدازاں سپیکر قومی اسمبلی نے آج دن تین بجے تک اجلاس ملتوی کردیا۔