پاکستان میں اس وقت تمام قومی اور علاقائی سیاسی جماعتوں نے دفاعی اداروں کو نشانے پر لے رکھا ہے۔ جسے جب اور جہاں موقع ملتا ہے وہ اپنا غصہ اسٹیبلشمنٹ پر نکال رہا ہے اور اپنی ہر ناکامی جانے والے آرمی چیف یا اپنے وقت کے آرمی چیف پر ڈال کر خود کو مضبوط بنا رہا ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کوئی بھی سیاسی جماعت خوشی خوشی وہ مدد حاصل کرتی ہے جسے بعد میں غلطی، ضرورت یا مجبوری کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش رہتی ہے۔ حالانکہ یہ سب اپنے اپنے وقت میں باوردی شخصیات کے ساتھ تعلقات اور حمایت کے خواہشمند رہے ہیں۔ کچھ تو یکطرفہ تعلقات کی بھی ایسی مارکیٹنگ کرتے ہیں کہ انہیں سن کر احساس ہوتا ہے کہ شاید عسکری فیصلے بھی ان سے پوچھ کر ہی ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی حکومت ختم ہوتی ہے یا پھر آرمی چیف کی مدت ختم ہوتی ہے اس کے بعد تمام برائیاں جانے والے میں نکالی جاتی ہیں۔ سیاست دانوں کو یہ فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آتا یوں وہ یکطرفہ بیان بازی جاری رکھتے ہیں اور جو دل چاہتا ہے بیان جاری کرتے رہتے ہیں۔ ایسی ہی منفی اور یکطرفہ بیان بازی کا سلسلہ ان دنوں بھی جاری ہے اور یہ مہم صرف صرف اور سیاسی ناکامیوں کو چھپانے یا صرف اور صرف سیاسی فائدے حاصل کرنے کے لیے ہے۔ جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین سابق وزیراعظم عمران خان کا بیان نظر سے گذرا ہے فرماتے ہیں کہ اگر اقتدار میں آیا تو فوج میں کرپشن کرنیوالوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ان چوروں کو مسلط کیا۔ پچیس اپریل دو ہزار چوبیس سے پہلے دوبارہ وزیر اعظم بن جاو¿ں گا۔ اب اس بیان کے بعد آپ کیا رائے قائم کر سکتے ہیں۔ اس بیان کو بھارت میں کیسے پیش کیا جائے گا اور دنیا میں اس بیان کو بنیاد بنا کر کس انداز میں منفی مہم شروع کی جائے گی۔ کیا یہ دنیا کو افواج پاکستان کے حوالے سے منفی باتیں کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا جا رہا۔ وہ محافظ جو امن قائم رکھنے کے لیے روزانہ اپنی جانوں کی قربانی دے رہے ہیں ایسے بیانات سے انہیں کیا پیغام جاتا ہے۔ دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی سنتے ہیں تو ایسے ہی نامناسب بیانات سامنے آتے ہیں اور یہ سلسلہ اتنا طویل ہو چکا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کو وضاحت جاری کرنا پڑتی ہے۔ یہ صورتحال ملک دشمنوں کے لیے تو حوصلہ افزا ہے۔ دشمن تو خوش ہو رہا ہے کہ جو کام دشمن نہیں کر سکا وہ ہمارے اپنے لوگ بہت مہارت کے ساتھ کر رہے ہیں۔
اگر ہم فوج کو دیکھتے ہیں تو وہ ملک کے دفاع کو مضبوط تر بنانے اور دشمنوں کی ہر چال کو ناکام بنانے میں مصروف ہیں۔ اسی سلسلے میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے چین میں پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے کمانڈر سے ملاقات میں باہمی سلامتی کے امور اور فوجی تعاون پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق چین پہنچنے پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا پرتپاک استقبال اور انہیں پی ایل اے ہیڈکوارٹرز میں گارڈ آف آنرپیش کیا گیا، آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے چاق چوبند دستے کا معائنہ کیا۔ اس ملاقات میں خطے میں امن و استحکام برقرار رکھنے اور فوجی تعاون بڑھانے کا اعادہ کیا گیا۔ آرمی چیف نے پی ایل اے کے دستوں کی آپریشنل صلاحیتوں کے مظاہرے کا بھی مشاہدہ کیا۔
ہمارے سیاست دان کب یہ سبق سیکھیں گے کہ ملکی مفاد بھی کوئی چیز ہے۔ وہ جو دشمن کی ہر چال کو ناکام بناتے ہیں، دشمن کے ہر حملے کا ناکام بناتے ہیں، دشمن کو ناکوں چنے چبوانے میں بے پناہ مہارت رکھتے ہیں، وہ اپنے وطن اور اپنے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اپنی قیمتی جانوں کو قربان کرتے ہیں لیکن کیا بدقسمتی ہے کہ وہ بہادر جو اپنا سب کچھ ملک و قوم پر قربان کرتے ہیں آج انہیں اپنے ہی لوگوں نے نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ صرف اور صرف ذاتی اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے اپنی ہی فوج کو بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ ضلع خیبر کی وادی تیراہ میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں دو سپاہی شہید اور دو دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ہلاک دہشت گردوں سے اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہوا ہے۔ مقابلے میں چار دہشت گرد زخمی بھی ہوئے۔ شدید فائرنگ کے تبادلے میں دو سپاہیوں وقاص علی شاہ اور باس علی نے بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ ایک طرف قیمتی جانوں کی قربانی کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف متنازع بیانات کا نہ تھمنے والا طوفان ہے۔ اپنی فوج بارے متنازع بیانات جاری کرنے سے پہلے کچھ تو عقل سے کام لیں، ہوش کے ناخن لیں۔ ہم کس کی مدد کر رہے ہیں۔ سیاسی قیادت کیوں نوجوان ذہنوں کو آلودہ کر رہی ہے، کیوں نفرت بھر رہی ہے اور کیوں نوجوانوں کو اپنے ملک سے متنفر کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ ملک ہے تو ہم ہیں۔ اس ملک کی بنیادوں میں ہمارے آباو اجداد کا خون ہے۔ اس ملک پر رحم کریں۔ ایک دوسرے کو نشانہ بناتے بناتے کہیں ہم دنیا کے نشانے پر نہ آ جائیں۔ سوچیں، سمجھیں اور خود کو بدلیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔
حالت ہماری یہ ہو چکی ہے کہ حج پر جانے والوں کی تعداد میں بھی کمی آ رہی ہے۔ مہنگائی کے باعث پاکستان میں پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ حج کوٹہ دستیاب ہے لیکن حج کرنے والے کم پڑ گئے ہیں۔ ڈالر کی قلت اور مہنگائی کی بدترین لہر نے پاکستانیوں کے لیے حج ادائیگی بھی مشکل کر دی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت نے استعمال نہ کیا جانے والا حج کوٹہ سعودی عرب کو واپس کرنےکا فیصلہ کیا ہے، حج کوٹے کی واپسی کا حتمی فیصلہ وفاقی کابینہ نے کرنا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کا مطالبہ رہا ہے کہ حج کوٹہ ایک لاکھ 79 ہزار دو سو دس سے بڑھا کر دو لاکھ دس سے بیس ہزار کیا جائے، پاکستان کو کئی برس بعد ایک لاکھ 79 ہزارکا پورا حج کوٹہ ملا تھا تاہم بدقسمتی سے مہنگائی کی وجہ اس سہولت سے فائدہ نہیں بم مکمل طور پر استعمال نہیں کر سکے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم سہولت موجود ہونے کے باوجود اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ اللہ تعالٰی ہمیں معاف فرمائے اور بہتر فیصلوں کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
محافظوں پر غیر ضروری تنقید!!!!!
Apr 27, 2023