کراچی (نوائے وقت رپورٹ) سندھ ہائیکورٹ نے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی اور کلفٹن کے مکینوں کو پینے کے پانی کی فراہمی سے متعلق درخواست پر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، نجی ہاؤسنگ سوسائٹی اور کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن سے پانی کے معاہدے کی تفصیلات طلب کر لیں۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ کے روبرو نجی ہاؤسنگ سوسائٹی اور کلفٹن کے مکینوں کو پینے کے پانی کی فراہمی سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔ جسٹس عقیل احمد عباسی نے ریمارکس دئیے کہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کو بنے 40 سال ہوگئے ہیں، اپنے رہائشیوں کو پانی تک نہیں دے سکا ہے۔ پہلے نجی سوسائٹی تھا اب اتھارٹی بنے بھی 30 سال ہو چکے ہیں۔ نجی اتھارٹی کے مکین پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ بظاہر لگتا ہے شہر میں مافیاز آپریٹ کر رہے ہیں، لوگوں کی چاندی ہو رہی ہے۔ جسٹس عقیل احمد عباسی نے ریمارکس میں کہا کہ پانی کی گزر گاہوں پر کچی آبادیاں بن چکی ہیں، وہ بھی پانی چوری کرتے ہیں۔ ٹینکرز والے بھی وہی پانی لیتے ہیں یہی تو لائن لاسز ہے۔ شہر میں پانی اور بجلی کی اتنی کمی نہیں ہے جتنی بتائی جاتی ہے۔ ساری کمی نیتوں کی خرابی کی ہے جن کا جو کام ہے وہ کرتے نہیں ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ پانی زمین پی جاتی ہے یا آسمان نگل جاتا ہے۔ جسٹس عقیل احمد نے ریمارکس دئیے کہ پانی کا بیشتر حصہ ٹینکرز مافیاز کو جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنے عرصے میں نجی اتھارٹی اپنے رہائشیوں کو پانی کیوں فراہم نہیں کرسکا ہے۔ لگتا ہے اتھارٹی کا کوئی ماسٹر پلان نہیں ہے۔