لاہور(کامرس رپورٹر ) صدر ایف پی سی سی آئی عرفان اقبال شیخ نے بقیہ ممالک کے مقابلے میں نسبتاً سستے روسی خام تیل کیلئے ملک کے پہلے آرڈر پر پاکستان کی تمام کاروباری، صنعتی اور تاجر برادری کے خوش آئند ردعمل کی نمائندگی کی ہے۔اس کے نتیجے میں پٹرول کی عالمی منڈیوں اور مروجہ نرخوں کے مقابلے میں پاکستان کو 18ڈالر فی بیرل تک یا 30 فیصد تک کا فائدہ ہو سکتا ہے۔عرفان اقبال شیخ نے اپنی امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ روسی تیل کا پہلا کارگو جہاز مئی 2023 میں کراچی پورٹ پر پہنچ جائے گا۔مزیدبرآں،رو س سے صرف کروڈ یا خام تیل درآمد کرنا معاشی طور پر بھی صحیح اقدام ہے کیونکہ پاکستان میں 3 بڑی آئل ریفائنریز روسی خام تیل کو ریفائن کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ صدر ایف پی سی سی آئی عرفان اقبال شیخ نے اس بات کو بھی سراہا کہ حکومت بتدریج پاکستان کے لیے روسی خام تیل کی کل درآمدات کو بتدریج 100,000 بیرل یومیہ تک بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن، یہ ہدف حکومتی اقتصادی اور انرجی ٹیموں کی طرف سے کچھ جرات مندانہ اقدامات کامتاقاضی ہے۔ شپنگ اور لاجسٹکس کے مسائل حل کرنے ہوں گے اور تجارتی لین دین کے طریقہ کار کو ہموار کر نا ہو گا۔کیونکہ،پاکستان کے لیے 100,000 بیرل پرڈے(bpb) ایک بہت بڑا والیم ہوگا۔واضح رہے کہ پاکستان نے سال 2022 میں تمام ممالک سے ملا کر 154,000 بیرل یومیہ تیل درآمد کیا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ اس واحدا قدام سے، جو کہ کاروباری برادری کے بار بار کی ڈیمانڈکے باوجود کافی تاخیر سے لیا گیا ہے، پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر، بیرونی ادائیگیوں کے توازن، تجارتی خسارے اور بڑھتے ہوئے افراط زر پر سے کچھ بوجھ کم کرے گا؛ کیونکہ ملک کے کل درآمدی بل میں پیٹرولیم سب سے بڑی کیٹیگری ہے۔صدرایف پی سی سی آئی نے کہا کہ کاروباری برادری نے بار بار یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ہر اس جیو اکنامک اور جیو اسٹریٹجک فیصلے کی حمایت کرتی ہے جو قومی مفاد میں ہو اور دنیا کے بہت سے ممالک پہلے ہی روسی خام تیل کو رعایتی نرخوں پر درآمد کر رہے ہیں۔جن میں ہمارے اتحادی اور دوست ممالک میں سے بڑی معیشتیں بھی شامل ہیں۔ مزید برآں، یہ اقدام کسی بھی بین الاقوامی قانون، معاہدے یا پابندیوں کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جہاں تک علاقائی ممالک کا تعلق ہے،انڈیا اور چین دونوں ہی روسی تیل کے بڑے درآمد کنندگان ہیں۔عرفان اقبال شیخ نے مطالبہ کیا کہ روسی خام تیل کے درآمدی حجم کو بڑھانے کے لیے پیش رفت کو مرحلہ وار طریقے سے آگے بڑھانا جانا چاہیے؛ تاکہ یہ پائیدار بنیادوں پر استوار ہو سکے،لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کے در آمدی والیم میں ضروری اضافہ جاری رہ سکے۔اس سلسلے میں سب سے اہم یہ ہو گا کہ قیمتوں میں رونما ہونے والی کمی کوصارف تک منتقل کیا جائے اور کاروباری برادری اور عام عوام کو تیزی کے ساتھ موثر ریلیف پہنچایا جائے تاکہ گزشتہ 12 سے 18 مہینوں میں پوری معیشت کو متاثر کرنے والی کساد بازاری اور مہنگائی کے نہ ختم ہونے والے دوہرے دباؤ کا کسی حد تک توڑ کیا جا سکے۔انہو ں نے مزید کہا کہ حکومت کے لیے یہ ایک سنہری موقع ہے کہ وہ پاکستان میں کاروبار کرنے کی لاگت کو کسی حد تک کم کرنے کے لیے اس ذریعے کو استعمال کرے؛ LCs کو ڈالر کے ذخائر پر دباؤ کے کم کرنے کے ذریعے آسانی کے ساتھ اوپن کرنے کی اجازت دے؛ ٹرانسپورٹ کے اخراجات کے کم کرنے کے ذریعے ضروری اشیائ کی قیمتوں میں کمی لائے؛ روپے کی قدر میں استحکام لائے اور عوام الناس کو تھوڑا بہت لیکن نہایت ضروری عبوری ریلیف فراہم کرے۔