مذاکرات کیلئے 2قدم آگے اور2قدم پیچھے ہٹنے کی ضرورت

Apr 27, 2023

ندیم بسرا
ملک میں الیکشن ایک وقت ہونگے یا علیحدعلیحدہ ،تاحال اس کے بارے میں قیاس آرائیاں ہرسیاسی حلقے میں جاری ہیں ،پی ڈی ایم ایک طرف مذاکرات میں لچک ضروردکھارہی ہے مگر اس کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کئی ہفتوں سے نہیں کر پارہی جس سے سیاسی حالات روز بروز خراب ہورہے ہیں۔انہیں سیاسی حالات کی وجہ سے اوورسیز پاکستانی بھی پریشانی میں مبتلا ہیں ساتھ بیرونی سرمایہ کار بھی اضطراب کا شکار ہیں کہ پاکستان میں لمبے عرصے کی سرمایہ کاری فوری کی جائیں یا سیاسی حالات بہتر ہونے تک رکا جائے۔اس وقت زیادہ تر سیاستدانوں کی نظریں قائد ن لیگ نوازشریف کی جانب لگی ہوئی ہیں ،نوازشریف ،مریم نواز نے رمضان المبارک کا آخری عشرہ مکہ،مدینہ اور جدہ میں گذارا،جہاں سے وہ اب لندن واپس چلے گئے ہیں اور مریم نواز پاکستان واپس آرہی ہیں۔سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ اپریل کا آخری ہفتہ اور مئی کا پہلا ہفتہ اس میں اہم فیصلے ہوسکتے ہیں جس میں آئندہ کاسیاسی اور ملکی مستقبل کا لائحہ عمل طے ہوسکتا ہے جس کے بعد صورت حال واضح ہوجائے گی۔حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی مذاکرات میں پل کا کردار ادا کرنے والے میر جماعت اسلامی سراج الحق کہتے ہیں کہا ہے کہ الیکشن کے حوالے سے معاملات بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔ مذاکرات کے حوالے سے جے یو آئی کا نظریہ کچھ ہے جبکہ پیپلزپارٹی کا کچھ اور ہے،بلاول بھٹو نے کہا سیاستدانوں میں مذاکرات نہ ہوئے تو مارشل لا کا خطرہ ہے۔مذاکرات کیلئے 2 قدم کوئی آگے بڑھے اور2قدم پیچھے ہٹے،لڑنے جھگڑنے کی بجائے الیکشن کی تاریخ متفقہ طور پر طے کرنے چاہیے۔سراج الحق کاکہنا تھا کہ سیاسی بحران سے سب سے زیادہ نقصان عوام کو ہوتا ہے،وزیراعظم اور ان کی ٹیم میں مذاکرات کے حوالے سے لچک موجود ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جولائی میں انتخابات کیلئے بات چیت ہو سکتی ہے،90دن کے معاملے کو سپریم کورٹ اور صدر کے ایڈوائز نے پیچھے چھوڑ دیا۔سپریم کورٹ نے خود کہا کہ سیاسی جماعتیں مل کر ایک تاریخ پر متفق ہو جائیں،سراج الحق نے کہا کہ یہ پی ڈی ایم کے اندرونی فیصلے پرمنحصر ہے کہ مذاکرات کیلئے کیا کرتی ہے۔ امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ پی ڈی ایم نے فیصلہ کیا تو باقی کوئی مشکل نہیں ہے،یہ وزیراعظم کیلئے امتحان کا وقت ہے کہ وہ اتحادیوں کو کہاں لے آتے ہیں۔سیاسی جماعتوں میں بات چیت جماعت اسلامی کا فیصلہ ہے۔ یہ ملک صرف دو جماعتوں کا نہیں سب کا ہے،اس الیکشن میں مجھ سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے حصہ لینا ہے۔الیکشن بیک وقت یا علیحدہ علیحدہ اس پر پاکستان مسلم لیگ ق کے چیف آرگنائزر چودھری سرور کاکہنا ہے کہ پاکستان میں الیکشن ایک ہی روز کروانے کیلئے متفقہ فیصلہ ہونا چاہیئے۔پی ڈی ایم والے کہتے ہیں عمران خان نے معیشت کو تباہ کیا، میں نے کہا تھا کہ ٓئی ایم ایف معاہدہ ملک کے لیے خطرناک ہوگا، سیاسی بے یقینی کی صورتحال سے معیشت کو نقصان ہوتا ہے، ملک کو اس نہج پر پہنچانے میں ہم سب نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ الیکشن صوبوں اور مرکز میں ایک دن ہونے چاہئیں، سمجھتا ہوں مذاکرات ہونے چاہئیں ، سیاستدانوں کو خود آپس میں بیٹھنا چاہیے۔دوسری جانب زمان پارک میں عمران خان روزانہ کی بنیاد پر ایک جلسہ کررہے ہیں جس سے ان کی سیاسی پکڑ روز بروز مضبوط ہوتی جارہی ہے وہ روزانہ ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ کارکنوں سے خطاب کرتے ہیں ان کے خطاب میں روزانہ ہی کوئی نئی سیاسی بات ہوتی ہے جس سے سیاسی حلقوں میں وہ مزید زیر بحث رہتے ہیں لہذا زمان پارک لاہوراور اسلام آباد اس وقت ملک کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔لاہور زمان پارک میںجہاں سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا عمران خان کی تمام تر سیاسی ایکٹویٹی کو لوگوں تک پہنچارہا ہوتا ہے جبکہ مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی،جے یو آئی ف،ایم کیو ایم سمیت دیگر سیاسی جماعتیں اس پلیٹ فارم پر بہت پیچھے رہ گئے ہے جس کیو جہ سے عمران خان کا بیانیہ ہر اس جگہ پہنچ رہا ہے، جس کو ہر جگہ پہچانے کے لئے انہیں شہر شہر جلسے کرنا پڑنے تھے اس لئے پی ٹی آئی اپنی سیاسی پکڑ کو مضبوط بنائے ہوئے ہے۔ایک خبر یہ ہے کہ تحریک انصاف نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں نگران وزرائے اعلیٰ کو فوری کام سے روکنے اور ہٹانے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔سپریم کورٹ میں یہ درخواست تحریک انصاف کے صدر پرویزالہٰی اور سابق وزیراعلیٰ کے پی محمود خان کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔درخواست میں استدعاکی گئی ہے کہ آئینی مدت کی تکمیل کے بعد پنجاب اور خیبرپختونخوا کے نگران وزرائے اعلیٰ کو فوری ہٹایا جائے۔ درخواست میں دونوں نگران وزرائے اعلیٰ کو اختیارات کے استعمال سے فوری روکنے کی بھی استدعاکی گئی ہے۔حال ہی میں ایڈیشنل آئی جی پنجاب کے عہدے سے ریٹائر ڈہونے والے سابق سی سی پی لاہور او غلام محمود ڈوگر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پر قاتلانہ حملے کی تفتیش کی فائل اپنے ساتھ گھر لے گئے ہیں۔ذرائع بتارہے ہیں کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر وزیرآباد میں ہونے والے حملے کی تحقیقات سابق سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کی سربراہی میں بننے والی جے آئی ٹی کررہی تھی، تاہم پی ٹی آئی کی پنجاب میں حکومت ختم ہونے کے بعد نگران حکومت پنجاب نے واقعہ کی تحقیقات کے لئے نئی جے آئی ٹی بنائی تھی جسے تاحال کیس فائل نہیں مل سکی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان پر قاتلانہ حملے کی تفتیش کی فائل سابق سی سی پی او لاہورغلام محمود ڈوگر ساتھ لے گئے ہیں، نئی جے آئی ٹی نے تفتیش کیلئے کئی بار فائل مانگی تاہم فائل نہیں ملی اور اسی وجہ سے کیس کی تفتیش بھی شروع نہیں ہوسکی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ نئی جے آئی ٹی آر پی او راولپنڈی خرم علی شاہ کی سربراہی میں بنائی گئی تھی جس نے انسداد دہشت گردی عدالت سے بھی کیس فائل نہ ملنے پر رجوع کرلیا ہے۔ذرائع کے مطابق نئی جے آئی ٹی کا مؤقف ہے کہ تحریک انصاف کے دور میں بننے والی جے آئی ٹی کے ارکان بھی غلام محمود ڈوگر کی تفتیش سے اختلاف کر چکے ہیں، جبکہ خود غلام محمود ڈوگر ریٹائر ہوچکے ہیں لیکن انہوں نے کیس فائل جے آئی ٹی کے سپرد نہیں کی۔

مزیدخبریں