قومی افق
عترت جعفری
عیدالفطر اپنے روایتی مذہبی جوش وخروش سے منائی گئی، ملک کا ماحول جس طرح کا بن چکا ہے کہ اس میںکسی نہ کسی خبر کا انتظار کر رہا ہوتا ہے ،خدشات ، بداعتمادی ، سیاسی عدم استحکام کی جو علامات موجود ہوں تو افواہوں کا بازار گرم ہو جاتا ہے، جھوٹ کو تھوڑے سچ کی آمیزش کے ساتھ پھیلانا بہت آسان ہو جاتا ہے، کچھ اسی طرح کا ماحول عید سے قبل بھی موجود تھا ،ماضی کے بر عکس اس بار عید کی گہما گہمی کے دوران بھی بعض ایسی باتیں اور واقعات ہوئے جو حالات کی سنگینی کی جانب اشارہ کر رہی ہیں سوشل میڈیا نے ماحول کو نازک بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے، مخصوص پس منظر کے ساتھ آڈیو اور ویڈیو لیکز سامنے آرہی ہیں،جن کی وجہ سے بگاڑ دو چند ہو چکا ہے ۔پنجاب میں الیکشن کے انعقاد کا مسئلہ دراصل اس سارے تنازع کی بنیادی وجہ ہے، عدلیہ کا اس کیلئے حکم موجود ہے جس کے تحت14مئی کو پنجاب میں الیکشن ہوناہے ،اور اس میں شرکت کے لئے پی ٹی آئی ،پی پی پی ،پی ایم ایل ق سمیت مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنے امیدواروں کا اعلا ن کر دیا ہے ،مگر کیا ایک صوبے میں الیکشن کا مرحلہ مکمل ہو سکے گا اس بارے میں بہت سے سوالیہ نشان ہیں ،ظاہر ہے عدلیہ نے کہا ہے کہ اگر سیاسی قیادت آپس میں مذاکرات کر کے کوئی حل نکال لیتی ہے تو الگ بات ہے بہ صورت دیگر 14مئی کا حکم اٹل ہے ،عید سے پہلے سیاسی جماعتوں میں ڈائیلاگ کے انعقاد کی کوشش کی گئی،مگر مولانا فضل الرحمان ، اور بلاول بھٹو زرداری کی پریس کانفرنسوں کا جو لب ولہجہ تھا اور موقف تھا وہ کوئی اور ہی کہانی سنا رہا تھا،اس پس منظر میں معمول کی زندگی کا آغاز ہو چکا ہے ،اور قرائن بتا رہے کہ کہ ہفتہ عشرہ میں جاری معاملات کی کوئی نہ کوئی حتمی شکل سامنے آ جائے گی ، تحریکِ انصاف سے مذاکرات اور دیگر امور پر وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت اتحادی رہنماؤں کا اجلاس شروع ہو ا، اجلاس میں مولانا فضل الرحمٰن، آصف علی زرداری، میاں افتخار، خالد مقبول صدیقی ، آفتاب شیر پاو، خالد مگسی، آغا حسن بلوچ شریک ہیں۔ اجلاس میں ملکی سیاسی صورتِ حال پر غور کیا گیا ، مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کا جلاس بھی ہو ا ،اور وزیر اعظم نے اتحادی جماعتوں کے ارکان کے اعزاز میں عشایئہ بھی دیا ،ان تمام اجتماعات میں سیاسی صورت حال ،الیکشن کے حکم سمیت مختلف امور پر مشاورت کی گئی ،یہ بات قابل ذکر ہے کی عید کی تعطیلات کے فوری بعد قومی اسمبلی کے اجلاس کی کاروائی دوبارہ شروع ہو چکی ہے ،ظاہر کی ایوان کے اجلاس کو تواتر سے جاری رکھنا کسی نہ کسی مقصد کے تحت ہے ،اور عام طور پر لوگوں میں جو گفتگو کی جاتی ہے اس میں کہا جاتا ہے کہ اداریاپنے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں ایک دوسرے کے سامنے آ سکتے ہیں۔پنجاب میں الیکشن کے حوالے سے عدلیہ میں سماعت بھی رواں ہفتے ہونے جا رہی ہے۔ اس دوران سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کا بینچ جس نے بدھ کو مقدمات کی سماعت کرنا تھی وہ بنچ ٹوٹ گیا ہے ،بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیے گئے تمام مقدمات بھی ڈی لسٹ کر دیے گئے۔ رجسٹرار سپریم کورٹ نے مقدمات ڈی لسٹ ہونے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ چیف جسٹس پاکستان کے بینچ کے ڈی لسٹ ہونے کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ بینچ چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی خرابی صحت کے باعث ڈی لسٹ ہوا۔
سابق وزیر دفاع پرویزخٹک کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا تھا ،ان سے تعزیت کے لئے مسلم لیگ کا وفد لاہور میں ان کی رہائش گاہ پر گیا تھا ،اس موقع پر سابق وزیر اعلی پنجاب اور سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر بھی موجود تھے ، غالب امکان ہے کہ اس موقع پر سیاسی امور پر بھی گفتگو کی گئی ، بہر حال حکومت کو پی ٹی آئی سے بات چیت کرنے کے بارے میں حتمی پوزیشن لینا پڑے گی ، اگر بات چیت کا فیصلہ ہوتا ہے تو بھی عدلیہ کی ڈید لائن جو26اپریل تک ہے اس کو پورا کرنا ممکن نہیں رہا ہے ،کیونکہ سیاسی بات چیت ایک پیچیدہ عمل ہوا کرتا ہے۔یہ اس وقت اور بھی مشکل ہو سکتی ہے جب پی ٹی آئی اور حکومتی اتحاد کے درمیان موقف میں بہت زیادہ تضاد نظر آ رہا ہے ،ویسے بھی حکومتی اتحاد کے راہنماؤں کے اجلاس سے جو خبریں سامنے آئیں ان میں کہا گیا ہے کہ اجلاس کا موقف تھا سیاسی مصالحت کرنا عدلیہ کا کام نہیں ،تاہم ایک پارلیانی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو پی ٹی آئی سے بات چیت کرے گی ۔ اس دوران چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کا دورہ ء چین خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔دنیا بدل رہی ہے ،سعودی عرب اور ایران میں سفارتی تعلقات کی بحالی،بھارت میں ایس سی او اجلاس میں شرکت بارے بلاول بھٹو زرداری کاا علان، اور ابھرتے ہوئے عالمی منظر کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام کے تاثر کو ختم کیا جائے ۔نئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی پریس کانفرنس میں بہت سے سلگتے سوالات کا جواب دیا ،ترجمان پاک فوج میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف ہماری کامیاب جنگ آخری دہشتگرد کے خاتمے تک جاری رہے گی' عوام کے تعاون سے ہم ہر چیلنج پر قابو پا لیں گے اور وطن عزیز کو مستحکم اور دَائمی امن کا گہوارہ بنائیں گے' پاک فوج غیر سیاسی ادارہ ہے، افواج پاکستان اور منتخب حکومت کا غیر سیاسی اور آئینی رشتہ ہوتا ہے اسے سیاسی رنگ دینا مناسب بات نہیں۔ہمارے لیے تمام سیاست دان اورسیاسی جماعتیں قابل احترام ہیں،پاک فوج کسی خاص جماعت، سوچ یا نظریئے کی کی طرف راغب نہیں ۔ سیاستدان فوج کی غیرسیاسی ہونے کی سوچ کو تقویت دیں' انتخابات کیلئے فوج کی طلبی حکومت کا اختیار ہے 'اس بارے میں وزارت دفاع نے زمینی حقائق کے مطابق اپنا جواب الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ میں پیش کر دیا 'کشمیر کبھی بھارت کا اٹوٹ انگ رہا ہے اور نہ رہے گا۔