بھارت میں مذہبی بنیادوں پر ہونے والے شدت پسندی کے واقعات اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب اس قسم کا کوئی نہ کوئی واقعہ ملک کے کسی حصے میں پیش نہ آتا ہو۔ ان واقعات کے ایک تواتر سے ہونے یا بڑھنے کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی میں چلنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مرکزی حکومت ایسے افراد اور گروہوں کی عملی طور پر حوصلہ افزائی کررہی ہے جو اقلیتوں کے خلاف شدت پسندی کے واقعات میں ملوث ہیں۔ خود نریندر مودی ریاست گجرات میں اب سے تقریباً دو دہائیاں قبل، جب وہ وہاں وزیراعلیٰ تھے، مذہبی بنیاد پر ہونے والے خونریز واقعات میں نہایت اہم کردار ادا کرچکے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے حال ہی میں ایک دستاویزی فلم (India: The Modi Question) جاری کی ہے جس میں مذکورہ واقعات میں مودی کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
مودی کے علاوہ بھی بہت سے بی جے پی رہنما بالعموم تمام اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے اور شدت پسندوں کو ان کے خلاف اکسانے کی وجہ سے شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ انھی میں سے ایک نام یوگی آدتیہ ناتھ کا بھی ہے جو گزشتہ چھے برس سے اتر پردیش کے وزیراعلیٰ ہیں۔ 2011ء میں بھارت میں ہونے والی آخری مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق، اتر پردیش بھارت کی وہ ریاست ہے جہاں سب سے زیادہ مسلم آبادی پائی جاتی ہے۔ اس ریاست میں ایک ایسے شخص کا وزیراعلیٰ بننا جو مذہب شدت پسندی کے حوالے سے ایک خاص شہرت اور شناخت رکھتا ہے بہت معنی خیز ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ مسلمانوں کے خلاف اپنی نفرت انگیز تقریروں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں اور انتہا پسند ہندوؤں کی آنکھ کا تارا وہ اسی لیے بنے ہوئے ہیں کہ وہ بھارت کو ایک خالص ہندو ریاست کے روپ میں دیکھنے کے خواہاں ہیں۔
اجے سنگھ بِشت، جو اب یوگی آدتیہ ناتھ کے نام سے پہچان رکھتے ہیں، بھارت میں نریندر مودی کے بعد اگلے وزیراعظم کے طور پر بھی دیکھے جارہے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مودی ہی 2024ء میں ہونے والے عام انتخابات میں بی جے پی کے امیدوار برائے وزیراعظم ہوں گے۔ یوگی اور مودی دونوں ایک ہی سوچ کی پیداوار ہیں اور اقلیتوں سے نفرت کے معاملے میں دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس صورتحال میں ان میں سے کوئی بھی وزیراعظم بنے نتیجہ یہی نکلے گا کہ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ہونے والے مظالم کو مزید ہوا ملے گی۔ ان دونوں کا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ یہ کسی خاص عہدے پر پہنچنے کے بعد اپنے شدت پسند نظریات سے وابستگی میں مزید پکے ہوئے اور پھر انھوں نے ایسی پالیسیاں اختیار کیں جن کی وجہ سے شدت پسندی میں کمی آنے کی بجائے مزید اضافہ ہوا۔
بی جے پی کے یہ دونوں رہنما راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے جس شدت پسند نظریے کے حامی ہیں اس کے تحت کسی غیر ہندو شخص کے لیے نرم گوشہ صرف اس صورت میں پیدا ہوسکتا ہے جب وہ شخص غیر ہندو اقلیتوں سے نفرت اور بیزاری کا پرچار کرے۔ اسی کی ایک واضح مثال حال ہی میں مرنے والے پاکستانی نژاد کینیڈین مصنف طارق فتح ہیں جن کی موت پر آر ایس ایس کے جنرل سیکرٹری دتاتریہ ہوسبلے نے انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ اس خراجِ عقیدت میں طارق فتح کی ذرائع ابلاغ اور ادبی دنیا کے لیے جن خدمات کا ذکر کیا گیا اور مرنے والے کے جن اصولوں اور عقائد کو سراہا گیا وہ صرف اور صرف مسلمانوں کے مذہب اور تاریخ سے اظہارِ نفرت پر مبنی تھے۔ یوٹیوب پر موجود سینکڑوں ویڈیوز اس بات کی گواہ ہیں کہ طارق فتح کی آر ایس ایس کے لیے قبولیت کا راز ان کی حد سے بڑھی ہوئی مسلم دشمنی میں پنہاں تھا۔
اس سلسلے میں اہم ترین بات یہ ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف بڑھتی ہوئی شدت پسندی کو عالمی برداری مسلسل نظر انداز کررہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی طاقتور مغربی ملک یا بڑے بین الاقوامی ادارے کے پاس بھارت میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم سے متعلق ثبوت اور شواہد موجود نہیں ہیں۔ گاہے گاہے جاری ہونے والے مذمتی بیانات اور رپورٹوں سے پتا چلتا ہے کہ عالمی اداروں اور بین الاقوامی برادری کے پاس بھارت پر فردِ جرم عائد کرنے کے لیے مواد تو دستیاب ہے تاہم بوجوہ اس سلسلے میں کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی جارہی۔ وجوہ ممکنہ طور پر کیا ہوسکتی ہیں ان کے بارے میں امریکی جریدے ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں چند ماہ پہلے شائع ہونے والے مضمون(The world continues to ignore the radicalization of India) کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:
... the outside world doesn’t seem willing to stand up for India’s Muslims and other minorities. World leaders apparently prioritize maintaining strategic relations with India to counter China and Russia, not understanding that this willful and convenient ignorance is amplifying state-sanctioned violence against the 220 million Muslims in India.
٭…٭…٭