انتخابات کے لیے دن اور وقت مخصوص کرنے کے پیچھے فلسفیانہ انداز فکر جاننے کے بعد اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں کیا جاتا ہے کہ انتخابات کے لیے اس طرح کی سکیم متعارف کروائی جائے؟ اس کا سب سے بڑا اور نہایت اہم مقصد انتخابات کے صاف، شفاف، آزادانہ اور منصفانہ انعقاد کو یقینی بنانا ہے۔ امریکی سیاسی نظام سے ہی ایک مثال لیں، امریکا میں اب تک کیے گئے سیاسی جائز وں کے مطابق امریکی صدر اپنی مقبولیت کے عروج پر اس وقت ہوتا ہے جب وہ امریکی فوج کسی دوسرے ملک میں لڑنے کے لیے بھیجتا ہے، بحران کے ان دنوں میں امریکی عوام ہمیشہ اپنے صدر کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ جارج بش کی مثال ہمارے سامنے ہے، جب وہ امریکا کے صدر بنے تو امریکی تاریخ کے سب سے کم مقبول رہنما تھے مگر نائن الیون کے نتیجہ میں عراق اور پھر افغانستان میں فوجیں داخل کرنے کے بعد وہ سب سے زیادہ مقبول رہنما بن گئے۔ اگر امریکا میں انتخابات کا دن اور وقت مقرر نہ ہو تو پھر امریکی صدر اپنی مقبولیت کے عروج پر انتخابات کا اعلان کرسکتا ہے تاکہ اسے اور اس کی پارٹی کو فائدہ پہنچے۔
انتخابات کے انعقاد کے پیچھے فلسفہ کو سامنے رکھتے ہوئے کیا یہ بات واضح نہیں کہ عمران خان کا قومی اسمبلی سے مستعفی اور پھر دو صوبوں کی اسمبلیاں برخاست کرنے کا مقصد وفاقی حکومت اور دیگر دو صوبائی حکومتوں پر قبل ازوقت انتخابات کے لیے دباؤ ڈالنا تھا تاکہ اپنے مخصوص سیاسی بیانیے کی مقبولیت اور ملک میں روز بروز بڑھتی مہنگائی کا بھرپور فائدہ اٹھا کر اپنے سیاسی مخالفین کو انتخابی میدان میں چاروں شانے چت کیا جائے۔ عمران خان کے لیے تحریک عدم اعتماد سے پہلے انتخابات فائدہ مند نہیں تھے، پچاس لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریوں جیسے انتخابی وعدوں کی تکمیل ناممکن تھی، مہنگائی اور تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی تھیں، روپے کے مقابلہ میں ڈالر بھی اونچی اوڑان بھر رہا تھا۔ اس لیے وقت سے پہلے اسمبلیوں کی تحلیل اور نئے انتخابات کا اس وقت کی اپوزیشن کا مطالبہ مسلسل رد کیا جاتا رہا مگر عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد اپوزیشن جماعتیں اقتدار میں آگئیں اور جاری معاشی مسائل کا مزید شدت سے سامنا پی ڈی ایم کی نئی حکومت کو کرنا پڑا تو انتخابات کے جلد انعقاد کا مطالبہ اب عمران خان کا موقف بن گیا۔ پہلے یہ اپوزیشن کا مطالبہ تھا۔
اس صورتحال کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آئین کی منشاء یہی ہے کہ عام انتخابات میں سب فریقین کے لیے ماحول ایک جیسا سازگار ہو۔ ہاں اگر عمران خان عوام سے پچاس لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں اور مہنگائی کم کرنے کا وعدہ کرکے مقرر کردہ پانچ سالا مدت سے ایک سال یا دو سال قبل دوبارہ جلدی نئے انتخابات کے لیے عوام کے پاس چلے جاتے تو آئین اس بات کی ممانعت نہیں کرتا۔ ایسی صورت میں ہونا یہ تھا کہ عمران خان قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے حق میں ہوتے اور نئے انتخابات کی داغ بیل ڈالتے اور اگر کوئی ایک آدھ صوبہ جہاں ان کی حکومت نہیں تھی رہ بھی جاتا تو آئین کی دی گئی انتخابات کی سکیم پر زیادہ اثر نہیں پڑنا تھا مگر عمران خان عدم اعتماد کی تحریک کا مقابلہ نہ کرسکے، حکومت سے نکلنے کے فوری بعد نئے انتخابات کا مطالبہ نہ ہی آئین طور پر درست تھا اور نہ ہی اخلاقی طور پر۔
قبل از وقت انتخابات کے مطالبے کے پیچھے اکیلے عمران خان یا ان کی سیاسی جماعت ہی نہیں ، لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور مقتدر اداروں میں بھی چنیدہ افراد موجود ہیں جو عمران خان کو دوبارہ اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ اس نامکمل ایجنڈا کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکے جو عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کی وجہ سے نامکمل رہ گیا اور جس میں نئے صدارتی طرز کے نظام حکومت کی داغ بیل، پاپولر قیادت کے ذریعے فوج پر سولین بالادستی کا حصول اور ایٹمی ملک ہونے کے ناتے پاکستان کے مخصوص بین الاقوامی کردار کی تشکیل نمایاں ہیں۔ اب لگتا ہے کہ نہ صرف حکومتی سیاسی جماعتوں بلکہ اسٹیبلشمنٹ اور اعلیٰ عدلیہ میں موجود دیگر متعلقہ افراد کو اس منصوبہ کی بھنک پڑ چکی ہے اور اب معاملات ایسی جگہ پر پہنچ چکے ہیں جہاں ایک فریق کی کامیابی دوسرے فریق کے سیاسی منظر سے مکمل غائب ہونے پر ہی منتج ہوگی۔ عمران خان مخالف حلقوں کو یہ برتری حاصل ہے کہ حکومت اور اقتدار ان کے ہاتھ میں ہے، عمران خان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی راہ صرف اس صورت میں ہموار ہوسکتی ہے اگر اسٹیبلشمنٹ اور اعلیٰ عدلیہ میں اس کے حامی فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے قابل ہوجائیں۔
ایک اور اہم مسئلہ انتخابات ہوجانے کی صورت میں انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے کا ہے۔ عمران خان اگر ہار جاتے ہیں تو وہ کسی صورت بھی ہار کو تسلیم نہیں کریں گے، دھاندلی کے خلاف ایک اور طرح کی سیاسی تحریک شروع ہوگی جو پرتشدد بھی ہوسکتی ہے، گویا انتخابات کے بعد سیاسی عدم استحکام عروج پر جاسکتا ہے۔ عمران خان کی کامیابی کی صورت میں مخالف سیاسی قوتیں بھی میدان میں اتر سکتی ہیں، عمران خان انتقام کی سیاست بھی کرسکتے ہیں جس سے حالات اور خرابی کی طرف جائیں گے۔ اگر کسی وقت یہ پتا چلا لیا گیا کہ نئے انتخابات اپنی من پسند تاریخ پر کروانے کے لیے یہ سب تگ و دو کچھ اداروں میں بیٹھے ہوئے طاقتور لوگوں کی ملی بھگت سے ہورہی تھی تو یاد رکھیں یہ آئین اور ریاست سے اپنی وفاداری کو ختم کرنے کے مترادف ہے جس کا ذکر اور سزا آئین کے آرٹیکل 5 اور 6 میں درج ہے۔ (ختم شد)
انتخابات کی تاریخ کا بنیادی فلسفہ (2)
Apr 27, 2023