ڈاکٹر یمنٰی آصف جاہ میدان عمل میں

میں ڈاکٹر آصف جاہ سے عید ملنے کے لیے علامہ اقبال ٹائون لاہور میں ان کے دولت کدے پر پہنچا ،جب سے وہ ٹیکس کے محتسب اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے ہیں یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی ۔میں نے انہیںڈبل مبارک باد دی ،ایک عید کی اور دوسری نیا عہدہ سنبھالنے کی ۔میں نے پوچھا کہ نئی ذمہ داریوں کے بعد آپ کی کسٹم ہیلتھ کیئر کا کیا بنا ،کہنے لگے اس کی سرگرمیوں میں پہلے سے زیادہ تیزی آگئی ہے کیونکہ ان کی بیٹی ڈاکٹر یمنٰی نایاب نے اس کے سربراہ کی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں ،وہ اپنی تعلیم کے دوران بھی میرے ساتھ مختلف امدادی سرگرمیوں میں شرکت کرتی رہی ہے ۔میں حیران ہوں کہ اس نے بڑے اعتماد کے ساتھ میرے ورثے کو آگے بڑھایا ہے ۔حال ہی میں ترکی اور شام میں زلزلے نے تباہی مچائی تو وہ کثیر امداد لے کر وہاں بھی پہنچی ۔ ڈاکٹر یمنٰی نایاب نے اپنے والد گرامی کے توصیفی کلمات سنے تو اس کی پیشانی فخر اور مسرت سے دمکنے لگی ۔ترکی میں امدادی سرگرمیوں کے بارے میں ڈاکٹر آصف جاہ نے مجھے ایک تفصیلی روداد واٹس ایپ میں بھجوا دی تھی ۔میں اسے اپنے کالم کے قارئین کے ذوق مطالعہ کی نذر کر رہا ہوں ۔
مجھے گفٹ نہیں چاہئے، کپڑے بھی نہ دیں۔ حجاب والی بیٹی کہہ رہی تھی کہ مجھے تو’’سجادہ‘‘چاہیے۔ اس نے گرم شال بھی واپس لوٹا دی۔ ساتھ کھڑے مہمت نے بتایا کہ یہ بچی کہہ رہی ہے کہ مجھے جائے نماز چاہئے۔ میں نے کئی دنوں سے نماز نہیں پڑھی۔ میں نے فوراً اپنے بیگ سے بچی کو سفری جائے نماز نکال کر دی۔ اس نے اس کو اپنے ہاتھوں میں دبوچ لیا اور خوشی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے بڑے پیارے انداز میں ہمیں چوک تشکر یعنی بہت شکریہ کہا فروری کے آخری ہفتے میںکسٹم ہیلتھ کیئر سوسائٹی کی ٹیم ترکیہ کے زلزلہ زدہ علاقوںمیں موجود ہے۔ 
9 بجے جہاز عدیمان ایئر پورٹ پر اترا۔ جنوبی ترکیہ کے اس شہر میں زلزلہ کی تباہ کاریاں واضح نظر آ رہی تھیں۔ ہوٹل والوں نے ناشتے کے پیکٹ صبح ہی دے دیے تھے۔ ایئر پورٹ پر ایک بچے کو پیکٹ دینے کی کوشش کی تو وہ ماں کی طرف دیکھنے لگا۔ ماں نے اثبات میں سرہلایا تو اس نے ’’تشکر‘‘ کہہ کر لے لیا۔ استنبول سے آنے والا ناشتہ عدیمان کے بچے کے نصیب میں تھا۔ عدیمان ایئر پورٹ پر دو گھنٹے سے زیادہ رکنا پڑا کیونکہ زلزلہ زدہ علاقوں میں جانے کے لیے گاڑیاں نہیں مل رہی تھیں۔بڑی مشکل سے گاڑیاں ملیں تو ایئر پورٹ سے روانہ ہوئے۔ ایئر پورٹ سے عدیمان کے علاقے گول باسی (Gol Basi) کے لئے روانہ ہوئے۔ ایک گھنٹہ کے سفر کے بعد گول باسی پہنچ گئے۔ شہر میں داخل ہوتے ہی زلزلہ سے تباہی اور بربادی کے آثار نظر آنا شروع ہو گئے۔ ہر طرف تباہی اور بربادی تھی، ملبہ کے ڈھیر تھے۔ بڑے بڑے ٹاورز، پلازا، بلند و بالا عمارتیں، گھر زمین بوس ہوئے نظر آ رہے تھے۔ چاروں طرف مٹی، کنکریٹ اور سریے کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ 
فلک بوس عمارتیں زمین بوس ہو چکی تھیں۔ بڑی بڑی بلڈنگز 40 سیکنڈز میں پلک جھپکتے زمین بوس ہو گئیں۔ گول باسی میں لگتا ہے کہ جن آئے۔ انہوں نے عمارتوں کو تہہ و بالا کر دیا۔ 8 اکتوبر 2005ء کے زلزلے میں بالا کوٹ پہنچ کر ایسے ہی لگتا تھا، بالا کوٹ میں لگتا تھا کہ کارپٹ Bombing ہوئی ہے۔ گول باسی میں بھی کچھ ایسے ہی مناظر تھے۔ بڑی بڑی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بنی ہوئی تھیں ہر طرف کنکریٹ مٹی، سیمنٹ اور سریے کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ چھ فروری کے زلزلہ میں گول باسی تقریباً سارے کا سارا تباہ و برباد ہو گیا۔ ہنستا بستا شہرپل بھر میں ملبے کا ڈھیر بن گیا۔ 
ایک ایسی دس منزلہ عمارت کو بھی دیکھا جس کی پوری بنیادیں اپنی جگہ سے نکل گئیں، پوری عمارت ایک طرف جھک کر دوسری عمارت کے سہارے اپنی جگہ سے سرک گئی۔ اللہ کی قدرت ہے کہ یہ عمارت اپنی بنیادوں سمیت ایک طرف جھک گئی، نہ کوئی شیشہ ٹوٹانہ پوری عمارت میں کریک آئے، مقامی باشندوں نے بتایا کہ اس عمارت میں رہنے والے تمام لوگ محفوظ رہے۔ کسی کو کوئی زخم تک نہ آیا۔ گری ہوئی عمارتوں کے نیچے آئی ہوئی گاڑیاں آدھی سے زیادہ اندر کو دھنسی اور آدھی سے زیادہ پچکی ہوئی تھیں۔ اکثر جگہوں پر عمارتوں کے مکین اپنے اپنے گھروں کے سامنے بیٹھے حیرت سے اپنے گھروں کی طرف دیکھ رہے تھے، مگر پر عزم تھے کہ انشاء اللہ وہ دوبارہ سے اپنے گھروں میں آئیں گے۔ اپنے برباد گھروں کی تعمیر کریں گے۔ ان کے صدر طیب اردگان نے عدیمان آ کر اعلان کیا کہ انشاء اللہ ایک سال میں دوبارہ سے زلزلہ زدہ شہروں کی تعمیر مکمل ہو جائے گی۔ ترک قوم بہادر، صبر کرنے والی اور پر عزم قوم ہے۔ انشاء اللہ وہ اس بڑی آزمائش سے عہدہ برآں ہو جائینگے اور کندن بن کر نکلیں گے۔
سب سے پہلے گول باسی کے میئر سے ملے۔ ان سے تعزیت کی مرنے والوں کے لیے دعائے مغفرت کی۔ انہیں اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ ڈاکٹر سعید اختر نے بھی اپنی خدمات پیش کیں۔ میئر نے بتایا کہ ہمارا سارا انفراسٹریکچر تباہ ہو چکا ہے۔ فرانس کی حکومت نے ادھر ایک ہسپتال بنایا ہے۔ ڈاکٹر سعید نے کہا کہ ہم ہسپتال کے لیے ادویات اور دوسری ضروری سرجیکل اشیاء دینے کے لیے تیار ہیں۔شہر کے میئر بہت رنجیدہ اور اُداس لگ رہے تھے۔ ان کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ لگ رہا تھا وہ کئی دن سے سوئے نہیں۔ میئر نے پاکستان کے لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ترکیہ صدیوں سے پیار اور محبت کے رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ ہم نے کہا کہ ترکیہ نے مصیبت کی ہر گھڑی میں پاکستان کی مدد کی ہے۔ خیر سگالی کے اسی جذبے کے تحت ہم یہاں موجود ہیں۔ انشاء اللہ زلزلہ زدگان کی بحالی تک ہم ترک بہن بھائیوں کی مدد کرتے رہیں گے۔ 
مہمت کے ساتھ دو گاڑیوں میں بیٹھ کر گول باسی کے زلزلہ زدگان کے خیموں تک گئے۔ یمنیٰ نے بچوں کے لیے گفٹ بنائے تھے۔ ترکیہ آنے سے پہلے کی رات نرگس اعوان نے خوبصورت چادریں بھجوائی تھیں۔ زلزلہ زدہ افراد گول باسی میں کئی مقامات پر خیموںمیں موجود تھے۔ وہاں جا کر ان سے اظہار ہمدردی کیا۔ بچوں میں گفٹ بانٹنے شروع کیا تو وہ کثیر تعداد میں جمع ہو گئے۔ یمنیٰ، حذیفہ نے بڑی محبت سے بچوں میں گفٹ تقسیم کیے۔ عورتوں اور لڑکیوں کو چادریں دیں تو وہ خوش ہو گئیں اور بڑی محنت سے تشکر کہہ کر شکریہ ادا کیا۔ مہمت کئی جگہوں پر لے گیا۔ جہاں خیموں میں جا کر بچوں میں گفٹس اور خواتین میں چادریں تقسیم کیں ۔
سکارف پہنے ایک بچی کو چادر دی تو اس نے کہا کہ میںکئی دنوں سے نماز نہیں پڑھ سکی، مجھے تو جائے نماز (سجادہ) چاہئے۔ ترکیہ آتے ہوئے بلال مسجد کے مولانا ذوالفقار نے پانچ سفری جائے نماز لے کر دیے تھے۔ ترکیہ کی بیٹی کو جائے نماز پیش کی تو اس کے آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس کو دیکھ کر ہماری آنکھیں بھی بھر آئیں۔ بیٹی نے سرجھکا کر بڑی محبت اور عقیدت سے تشکر کہہ کر شکریہ ادا کیا۔ یمنیٰ اور حذیفہ نے ٹینٹوں میں جا کر مکینوں میں ’’لیرا‘‘ بھی تقسیم کیے۔
آج جمعہ کا دن ہے۔ میئر کے کنٹینر دفتر کے قریب ایک بڑے خیمے میں عارضی مسجد بنی ہوئی تھی اور ساتھ ہی بڑا دستر خوان لگا ہوا تھا۔ جمعہ کی نماز ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر سعید اختر نے خطبہ دیا اور ہم نے ان کی اقتدا میں جمعہ کی نماز ادا کی۔ 2005ء کے زلزلہ کی یاد آ گئی جب کہ باغ میں ایسے ہی ایک دن جمعہ کی نماز ادا کی تھی۔ 

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن