تحریر: انور خان لودھی
پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے شاید ماضی سے سبق سیکھ لیا کہ رواں سال کچھ خالی اور کچھ مستقبل قریب میں خالی ہونے والی وائس چانسلرز کی نشستوں پر تعیناتیوں کا عمل بروقت شروع کردیا۔ کل 28 یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کیلئے اشتہار دے دیا۔ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی زیر صدارت کابینہ نے سرکاری جامعات کی چار کیٹگریز کیلئے چار سرچ کمیٹیوں کی منظوری دی۔ سرچ کمیٹیوں میں جن شخصیات کو شامل کیا گیا ہے وہ آسمانی یا نورانی مخلوق تو نہیں ہیں، اسی دھرتی کے خاکی لوگ ہیں۔ ان کی سماجی حیثیت اور قابلیت پر گفتگو یا تنقید ہو سکتی ہے اور ہو رہی ہے۔ سرچ کمیٹی کی اپنی سلیکشن کس بنیاد پر ہوئی اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کسی اور کالم میں کی جائے گی۔ تاہم قابل ستائش پہلو یہ یے کہ نگران حکومت نے وائس چانسلرز کی تلاش کا عمل بروقت شروع کر کے سرکاری یونیورسٹیوں کو اس بدنظمی سے بچا لیا ہے جو ماضی میں وائس چانسلر کی خالی آسامی پر عارضی چارج دینے سے دیکھنے کو ملتی تھی۔ نوٹیفکیشن کے مطابق جنرل، سپیشلائزڈ اور ویمن یونیورسٹیوں کی کیٹیگریز کے لئے چار سرچ کمیٹیاں بنائی گئی ہیں۔ پانچ رکنی تمام سرچ کمیٹیوں میں سیکرٹری ایچ ای ڈی پنجاب اور چئیرمین پی ایچ ای سی بطور سرکاری حیثیت ممبر ہوں گے۔ جنرل کیٹیگری کے ایک گروپ میں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان، یونیورسٹی آف گجرات، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد، یونیورسٹی آف پنجاب، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور، یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور، یونیورسٹی آف سرگودھا اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور شامل ہیں۔ اس گروپ کیلئے سرچ کمیٹی کا کنوینر سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایچ ای سی پاکستان و سابق وائس چانسلر لمز ڈاکٹر سہیل نقوی کو بنایا گیا ہے جبکہ ارکان میں سماجی رہنما ڈاکٹر امجد ثاقب اور ماہر تعلیم ظفر اقبال قریشی شامل ہیں۔ جنرل کیٹگری کے گروپ ٹو میں مری، جھنگ، اوکاڑہ، ساہیوال، نارووال، بھکر، ایمرسن ملتان، کمالیہ اور لیہ کی یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ اس گروپ کی سرچ کمیٹی کے کنوینر ڈاکٹر ظفر اقبال قریشی اور ارکان سابق چیئرمین پی ایچ ای سی ڈاکٹر نظام الدین اور ڈاکٹر امجد ثاقب ہیں۔ خواتین کی 8 یونیورسٹیوں کیلئے سرچ کمیٹی کی سربراہی ڈاکٹر سہیل نقوی کے سپرد ہے جبکہ اراکین میں نیشنل کالج آف آرٹس کی سابق پرنسپل سلیمہ ہاشمی اور ساجدہ ونڈال شامل ہیں۔ چوتھی اور آخری کیٹگری سپیشلائزڈ یونیورسٹیوں کی ہے جس میں ٹیکسلا، ملتان اور رحیم یار خان کی انجینئرنگ یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ اس کیلئے سرچ کمیٹی کے کنوینر ڈاکٹر ظفر اقبال قریشی ہیں جبکہ ایک ملٹی نیشنل فوڈ کمپنی کے چیئرمین سید یاور علی اور سابق وی سی انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی پنجاب ڈاکٹر عمر سیف ارکان میں شامل ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مختلف کیٹگریز کی سات سرکاری یونیورسٹیاں گزشتہ کئی ماہ سے باقاعدہ وی سی کے بغیر کام کر رہی ہیں جس کی وجہ سے یہ ادارے کئی مسائل کا شکار رہے۔ ان میں پنجاب یونیورسٹی، یونیورسٹی آف اوکاڑہ، بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان، یونیورسٹی آف لیہ، تھل یونیورسٹی بھکر، ڈیرہ غازی خان یونیورسٹی ڈی جی خان، اور یونیورسٹی آف جھنگ شامل ہیں۔ امید ہے کہ ایچ ای ڈی کی اس کاوش سے وائس چانسلرز بروقت تعینات ہو جائیں۔ وائس چانسلر کی سیٹ کئی لحاظ سے پرکشش ہے۔ سیکڑوں ملین کا سالانہ بجٹ، انتظامی اور تدریسی معاملات کی بلا شرکت غیرے سربراہی، غیر معمولی پروٹوکول اور خود مختار ادارے میں پر کیف سی خود مختاری ایسے پہلو ہیں کہ کون کافر وائس چانسلر نہ بننا چاہے؟ چنانچہ حاضر اور ریٹائرڈ سول و عسکری بیوروکریٹس کی بھی ان سیٹوں پہ پوری نظر ہے۔ آل پاکستان یونیورسٹی سٹاف ایسوسی ایشن وائس چانسلر کی سیٹ پر بیوروکریسی کے براجمان ہونے کے خلاف پہلے بھی مزاحمت کر چکی ہے اور شاید مستقبل میں اسے مزاحمت اور احتجاج کی ضرورت پڑے۔ محکمہ ہائر ایجوکیشن پنجاب بطور ایڈمنسٹریٹو ڈیپارٹمنٹ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے انتظامی امور کو دیکھتا ہے۔ تعیناتیوں کیلئے سمریاں تیار کرتا اور انہیں منظوری کیلئے وزیر اعلیٰ پنجاب اور گورنر پنجاب کو بھیجتا یے اور ریگولیٹری باڈی کا کردار نبھاتا ہے تاہم یونیورسٹیوں کے چانسلر کے طور پر گورنر پنجاب کی ذمہ داریاں بھی بڑی اہم اور گونا گوں ہیں۔ عہد حاضر کی خوش قسمتی یہ ہے کہ پنجاب کو جو گورنر محمد بلیغ الرحمان کی شخصیت میں نصیب ہے وہ ماہر تعلیم بھی ہے۔ چونکہ وہ وفاقی وزیر تعلیم بھی رہ چکے ہیں لہٰذا ایجوکیشن سیکٹر کے نبض شناس ہیں۔ گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان بطور چانسلر ایک قابل ستائش تبدیلی یہ لے کر آئے ہیں کہ یونیورسٹیوں سے متعلق سمریوں کی منظوری بلا تاخیر ہونے لگی ہے۔ راقم کو چند ہفتے قبل ایک سمری میں دلچسپی تھی۔ ایچ ای ڈی میں ایک مہربان سے کہا کہ مجھے فلاں سمری کا ڈسپیچ نمبر اور تاریخ اگر مل جائے تو میں اس کی جلد منظوری کیلئے کسی دوست بیوروکریٹ کو کہوں۔ جواب ملا اس کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ اوپر کے دفاتر میں بالعموم اور چانسلر آفس میں بالخصوص سمری اب رکتی نہیں۔ چنانچہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ چانسلر نے چند ہفتوں میں ایچ ای ڈی کی ارسال کردہ بہت سی سمریوں کو منظور کیا اور پھر سیکریٹری ایچ ای ڈی جاوید اختر محمود کی ہدائت پر بروقت ان کے نوٹیفکیشن جاری ہوئے۔ گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن کی چند ہفتوں میں منظور کی جانی والی سمریوں سے لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی میں پروفیسر ڈاکٹر سیدہ فلیحہ زہرہ کاظمی پروفیسر کو ڈین فیکلٹی آف اسلامک اینڈ اوریئینٹل لرننگ تعینات کردیا گیا۔ پروفیسر ڈاکٹر ہمایوں عباس کو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد میں ڈین, پروفیسر ڈاکٹر عزیرہ رفیق کو پرو وائس چانسلر فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی راولپنڈی، پروفیسر ڈاکٹر محمد امجد کو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا ممبر سنڈیکیٹ، ڈاکٹر لقمان ریاض کو تین ماہ کیلئے یونیورسٹی آف نارووال کا کنٹرولر امتحانات، مختار حسین کو ایمرسن یونیورسٹی ملتان کا رجسٹرار، ڈاکٹر ابرار کو کنٹرولر امتحانات کا اضافی چارج دیا گیا۔ اوکاڑہ یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات کا اضافی چارج ڈاکٹر محمد طاہر خان فاروقی کو تین ماہ کیلئے مل گیا۔ تھل یونیورسٹی بھکر میں رجسٹرار کا اضافی چارج ڈاکٹر شاہد کلیم خان کو چھ ماہ تک سونپ دیا۔ ٹریثرار کا اضافی چارج فہیم احمد خالد کو، کنٹرولر امتحانات کا اضافی چارج پروفیسر ڈاکٹر محمد کبیر کو تفویض کر دیا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد الیاس طارق کو سرگودھا یونیورسٹی کا پرو وائس چانسلر لگایا گیا۔ ڈاکٹر اظہر عباس خان ایسوسی ایٹ پروفیسر لیہ یونیورسٹی کو رجسٹرار جبکہ محمد اعجاز ایسوسی ایٹ پروفیسر کو کنٹرولر امتحانات کا اضافی چارج سونپا گیا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد جی سی یو فیصل آباد کے رجسٹرار کے عہدے کے اضافی چارج میں 6 ماہ کی توسیع کر دی۔ ایک اہم ذمہ داری کی پروفیسر ڈاکٹر مسعود صادق کو ملی جنہیں یونیورسٹی آف چائلڈ ہیلتھ سائنسز،لاہور کا وائس چانسلر مقرر کر دیا گیا۔ ڈاکٹر اشتیاق احمد رجوانہ کو ایم این ایس زرعی یونیورسٹی ملتان کا پرو وائس چانسلر لگایا گیا۔ صفدر عباس خان، ڈپٹی ٹریڑرار بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کو مزید چھ ماہ کیلئے ٹریڑرار کا اضافی چارج، بی زیڈ یو کے ڈپٹی ٹریڑرار ڈاکٹر محمد اقبال کو تین ماہ کیلئے لیہ یونیورسٹی کے ٹریڑرار کا اضافی چارج دیا گیا۔ ایچ ای ڈی کے موجودہ سیکرٹری جاوید اختر محمود نے ایک اور احسن کام یہ کیا ہے کہ نجی کالجز کی رجسٹریشن کا نظام مربوط کیا ہے اور معاملات کو افراد کے ہاتھوں سے نکال کر آن لائن کر دیا ہے۔ تعلیمی بورڈز کے تحت جاری امتحانات میں بھی ابھی تک کوئی بری خبر سامنے نہیں ائی۔ محکمہ ہائر ایجوکیشن سے عرصے بعد ٹھنڈی ہوائیں آنا شروع ہوئی ہیں۔ ان کے تسلسل کیلئے ہائر ایجوکیشن کا ہر سٹیک ہولڈر دعا گو ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس محکمے کو ایک الجھن درپیش ہے۔ وائس چانسلرز کو یونیورسٹیوں میں انتظامی امور شان دار اور منظم انداز میں چلانے کیلئے اہم پوسٹوں پر قابل افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے مگر افسوس کہ اس معاملے میں ریکارڈ تشویش ناک ہے اور اکثر یونیورسٹیوں میں رجسٹرار، کنٹرولر امتحانات اور ٹریڑرار کی سٹیچوری پوسٹیں خالی پڑی ہیں۔ ان پر ایڈیشنل چارج دے کر کام چلایا جارہا ہے۔ متعدد یونیورسٹیوں نے ان پوسٹوں کو مشتہر کیا مگر امیدوار دلچسپی نہیں لیتے اور پوسٹ خالی رہ جاتی ہے۔ کچھ یونیورسٹیوں میں تو یہ تینوں اہم سٹیچوئٹری آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ ان میں ناروال، سرگودھا، ساہیوال، ڈی جی خاں، میانوالی اور بھکر کی یونیورسٹیاں، ملتان، ٹیکسلا اور رحیم یار خاں کی انجینئرنگ یونیورسٹیاں، بی زیڈ یو ملتان، صادق کالج ویمن یونیورسٹی بہاولپور، اور ویمن یونیورسٹی ملتان شامل ہیں۔ چند یونیورسٹیوں نے ایک اور دو سیٹوں پر مستقل تعیناتیاں کی ہیں۔ جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں مستقل رجسٹرار اور ٹریڑرار کی سیٹ خالی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی ایسے قدیم اور مثالی ادارے میں کنٹرولر امتحانات اور رجسٹرار مستقل نہیں ہیں۔جی سی یونیورسٹی لاہور میں رجسٹرار اور کنٹرولر امتحان ایڈیشنل چارج پر کام کر رہے ہیں۔ لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی میں ٹریڑرار کی سیٹ خالی ہے۔ یونیورسٹی آف ایجوکیشن میں رجسٹرار کی پوسٹ مستقل تعیناتی کی منتظر ہے۔ یونیورسٹی آف اوکاڑہ میں صرف ٹریڑرار مستقل ہے۔ نو خیز جامعہ یونیورسٹی آف کمالیہ رجسٹرار اور کنٹرولر امتحانات، یونیورسٹی آف لیہ میں ٹریڑرار اور رجسٹرار، یونیورسٹی آف گجرات میں رجسٹرار اور ٹریڑرار ، فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی راولپنڈی میں رجسٹرار ، بابا گرونانک یونیورسٹی ننکانہ صاحب میں ٹریڑرار اور کنٹرولر امتحانات ، کوہسار یونیورسٹی مری میں بھی ٹریڑرار اور کنٹرولر امتحانات، ایمرسن یونیورسٹی ملتان، یونیورسٹی آف چکوال، یونیورسٹی آف جھنگ، راولپنڈی ویمن یونیورسٹی راولپنڈی اور ہوم اکنامکس یونیورسٹی لاہور میں صرف رجسٹرار کی پوسٹ پر مستقل تعیناتی ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، جی سی ویمن یونیورسٹی سیالکوٹ اور یو ای ٹی لاہور میں بھی ٹریڑرار کی پوسٹ پر ایڈہاک ازم موجود ہے۔ لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی نے ٹریڑرار کی پوسٹ مشتہر کی، سلیکشن کا سارا پراسیس مکمل کر کے نمبر ون امیدوار کو آفر لیٹر دیا گیا لیکن اس نے جائن نہ کیا۔ اس امیدوار سے کوئی یہ پوچھے کہ سلیکشن کے سارے عمل کو ضائع کیوں کیا۔ ایسے امیدواروں کو بلیک لسٹ کیا جانا چاہئے جو اداروں کا وقت اور توانائی ضائع کرتے ہیں۔