تحریر : علامہ عبدالستار عاصم
اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوںکو بے پناہ خوبیوں سے نوازا ہوتا ہے۔ ایک خوبی حسن اخلاق کی بھی ہے۔ حدیث نبوی? ہے کہ ’’تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس کا اخلاق اچھا ہے۔‘‘ اشرف شریف سینئر محقق، ادیب، دانشور، باغبان، باڈی بلڈر اور محبت تقسیم کرنے والا ایک شریف انسان دوست شخصیت ہیں۔ ایک دن ان کی کال آئی کہ ارمغانِ لاہور کے نام سے کتاب شائع کرنی ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کتاب بھجوائیں کتاب چھپ جائے گی۔ انہوں نے ارمغانِ لاہور کتاب بھیجی۔ کتاب کیا تھی بقول جناب مستنصر حسین تارڑ ’’لاہور پر معلومات کا ایک خزانہ ہے۔‘‘ اس کتاب پر میڈم سعدیہ قریشی، ذوالفقار علی چودھری، آصف محمود نے تبصرے بھی کیے اور علمی ادبی حلقوں میں یہ کتاب بے حد پسند کی گئی۔ کیونکہ اشرف شریف کا شمار دنیا کے بہترین محققین میں ہوتا ہے۔ ارمغانِ لاہور کی ایکسپو سنٹر میں بک فیئر پر ایک تقریب بھی ہوئی اور اس تقریب میں دْبئی سے خصوصی طور پر جناب سرمد خان تشریف لائے۔ سرمد خان کے ہاتھ میں کتابیں اور پروفیوم تھا۔ جو بھی ملنے والا آتا اس کے دل کے قریب ہلکا سا پروفیوم لگا کر ماحول کو خوشگوار بنا دیتا۔ یہ میری اس سے پہلی ملاقات تھی۔ سرمد خان کو مل کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے صدیوں سے ان سے فیملی تعلق ہے۔ وہ محبت تقسیم کرتا ہے اور محبت کا پرچار کسی سے نہیں کرتا۔ اْردو سے بے پناہ محبت ہے اور ان کی دلی خواہش ہے کہ اردو دنیا کی مقبول ترین ہو اور بڑی زبانوں میں اس کا شمار ہو، اس کی زندگی بڑھتی جائے۔ سرمد خان میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ایک بڑے انسان میں موجود ہونی چاہئیں۔ وہ دوستوں کا دوست ہے اور دوستوں پر جان تک نچھاور کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سرمد خان کو علمی جیسی بہت بڑی دولت سے نوازا ہے تو ساتھ ساتھ دنیا کی دولت سے بھی مالا مال کر دیا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں بھی بک فیئر ہو تو سرمد خان اس بک فیئر میں پہنچ جاتا ہے اور اردو زبان میں لکھی ہوئی کتابیں تلاش کرتا ہے۔ نہ صرف تلاش کرتا ہے بلکہ بڑی تعداد میں خرید کر پڑھتا بھی ہے اور بڑی تعداد میں دوستوں کو تحفتاً تقسیم کرتا ہے۔ اسی بک فیئر میں استاذ الاساتذہ جناب الطاف حسن قریشی مدیر اعلیٰ اْردو ڈائجسٹ کی ایک کتاب ’’مشرقی پاکستان ٹوٹا ہوا تارا‘‘ انہوں نے دیکھا تو انہیں بہت پسند آئی۔ اسی وقت میں نے جناب قریشی صاحب کو فون کیا کہ دْبئی سے ایک صاحب آپ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ تو انہوں نے بڑی شفقت اور محبت سے چائے کی دعوت دی اور ہم قریشی صاحب کے گھر جوہر ٹا?ن پہنچ گئے۔ اس موقعہ پر بنگلہ دیش کے ٹوٹنے کے اسباب اور خدشات پر بھی کھل کر باتیں ہوئیں۔ اور خاص کر بنگلہ دیش کی حمایت میں لکھی ہوئی کتابوں پر بھی گفتگو ہوئی اور طے یہ ہوا کہ ان کا نقطہ نظر بھی دیکھا جائے۔ اس موقعہ پر جناب الطاف حسن قریشی صاحب نے بڑی محبت کے ساتھ اپنے تاریخ ساز آٹو گراف کے ساتھ سرمد خان کو کتاب تحفتاً پیش کی۔ یہ کتاب معلومات کا خزانہ ہے۔ اور جب بنگلہ دیش بنا نہیں تھا اس سے پہلے الطاف حسن قریشی صاحب بنگلہ دیش گئے اور عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر جائزہ لیا اور پھر اپنے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو بتایا۔ یہ ان کی اتنی اہم باتیں تھیں کہ نہ تو عوام نے اور نہ ہی حکمرانوں نے ان باتوں پر کان دھرا۔ ویسے ہی حالات آج کل بلوچستان میں دہرائے جا رہے ہیں۔ یہ کتاب ہر اس محب وطن کو پڑھنی چاہیے یا سننی چاہیے جو پاکستان سے محبت کر تے ہیں۔ حکمران ہوں یا اپوزیشن، فوجی قیادت ہو یا سول بیوروکریسی ہو، صحافی ہو یا دانشور ہو، طالب علم ہو یا اْستاد ہو، علمائ ہوں یا سامعین ہوں، اینکر ہوں یا ناظرین ہوں یہ ہر بندے کے دل کی آواز ہے اور سب کو پڑھنی اور سننی چاہیے۔ تاکہ قوموں کی ترقی میں جو دانشور اپنا کردار ادا کرتے ہیں وہ کردار ادا ہو سکے۔ اسی طرح جمیل اطہر چیف ایڈیٹر روزنامہ جرات سے بھی ان کی فون پر بات کروائی۔ اور ان کی کتاب ایک عہد کی سرگزشت پیش کی۔ سرمد علی خان بنیادی طور پر چارٹرڈ اکا?نٹینٹ ہے۔ کئی بین الاقوامی کمپنیوں کو سرمایہ کاری کے لیے مشاورتی خدمات فراہم کرتا ہے۔ مستقل رہائش برطانیہ میں ہی ہے لیکن ہر ماہ دبئی میں بھی آتے ہیں۔ ان کی پسندیدہ کتب سیرت النبی? اور مستند تاریخی کتابیں ان کا موضوع ہیں۔سرمد خان انتظامی امور کے ماہر ہیں۔ اور جمع تفریق کے بے تاج بادشاہ بھی ہیں۔ سرمد خان کی خواہش ہے کہ پاکستان میں چھپنے والی کتابیں دنیا کی تمام یونیورسٹیوں میں الگ الگ شعبوں کے ساتھ موجود ہونی چاہئیں اور پاکستان کی تاریخ، پاکستان کا کلچر، تہذیب یہ بھی دوسرے لوگ پڑھیں، سنیں اور آج سے کئی عشرے قبل دیارِ غیر میں دن رات محنت کرنے والے لوگ جنہوں نے دن رات محنت کی اور آج وہ کامیاب ترین ادارے چلا رہے ہیں ان کی بایو گرافی بھی مختلف زبانوں میں چھپنی چاہیے تاکہ نوجوان نسل دیکھ سکے، سن سکے، پڑھ سکے کہ ہمارے اکابرین نے کتنی محنت کی ہے اور آج وہ کسی اعلیٰ مقام پر پہنچے ہیں۔ راقم نے جب نبی کریم? کے تمام مکتوبات پر مشتمل کتاب انسائیکلو پیڈیا مکتوبات پیش کی تو سرمد خاں صاحب نے تحسین کی نگاہ سے دیکھا اور سینے سے لگا لیا اور گویا ہوا کہ اقوامِ متحدہ کا چارٹر انہی سے لیا گیا ہے۔ نبی کریم? کا آخری خطبہ حجۃ الوداع بنی نوع انسان کے لیے مشعل راہ ہے اور آج یورپ نے تو حضرت عمر? اور نبی کریم? کی احادیث کی روشنی میں ترقی کر لی ہے۔ جبکہ مسلم دنیا ابھی ترقی سے کوسوں دور ہے۔ حالات کا تقاضا یہی ہے کہ پوری دنیا میں مسلم طلبائ و طالبات کو بڑی تعداد میں سائنس دان پیدا بنانے چاہئیں۔ تاکہ ہم آنے والے دنوں میں دنیا کا سامنا کر سکیں اور برابری کی سطح پر گفتگو کر سکیں۔ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقت اعلیٰ آئیڈیاز اور آئی ٹی کی طاقت ہے۔ اور یہی طاقت سرمد علی خان ہر پاکستانی میں دیکھنا چاہتا ہے۔