مفلوج معاشرے اور اقتصادی ترقی

فہمیدہ کوثر 

ایک مغربی مفکر اسپینگلر نے لکھا کہ وقت اور ضرورت کے ساتھ معاشرہ اور اس کے ارباب اختیار سیکھ جاتے ہیں کہ معاشرہ کن راستوں کو اختیار کرکے اقتصادی ترقی کی طرف بڑھتا ہے لیکن تاریخ نے تو ایسی قوموں کا بھی حوالہ دیا جہاں بے بسی لاقانونیت نے پنجے گاڑے رکھے نہ عوام کی حالت بدلی اور نہ حکمرانوں میں شعور آیا اس مسئلہ پر جب کارل مارکس نے روشنی ڈالی تو وہ اس نکتہ پر پہنچا کہ تبدیلی اجتہاد سے آتی ہے اور اس کیلئے جرا¿ت مند تخلیقی ذہن کی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کا۔ دور تھا وہ نہ صرف منصوبہ ساز تھے بلکہ ان کی ترقی کا دائرہ کار عوام کے گرد گھومتا تھا ستتر سالوں سے ھم ایک ہی مدار میں کیوں گھوم رہے ہیں اسکی ایک وجہ تو تعلیم یے تعلیم تو دور کی بات ھمارے بچپن کے کھیلوں میں بھی نظر آتی ہے کسی کو یاد ہوگا وہ کھیل بادشاہ کا وزیر کون۔ آواز آتی تھی جی حضور اس جی حضوری میں کہیں نہ کہیں فسطائیت کا شائبہ موجود تھا ھم بڑے ہو گئے کھیل وہی رہا وقت کے ساتھ ساتھ ذاتی مفادات نے قومی مفاد کو نگل لیا کہا جاتا ہے کہ جب جلال الدین اکبر نے فتح پور سیکری میں پہلا مدرسہ قائم کیا تو کتنے عرصے تک آباد نہ ہو سکا وہ یقیناً یہ سوچتا تھا کہ ان غلاموں کو تعلیم دینے کی کیا ا فادیت کام تو چل رہا ہے پھر اس کے بعد میں بھی آنے والے حکمرانوں نے بھی سڑکوں کی تعمیر محلات کی تعمیر اور شہزادوں شہزادیوں کے لئے خوبصورت تفریح گاہیں تعمیر کروائیں ان کا نظریہ یہ ہوگا کہ چھوٹے موٹے کام ان کے شایان شان نہیں وہ حکمران ہیں لہذٰا حیثیت اور مقام کو ملحوظ خاطر رکھنا لازم ہے پیسے کی انکو پروا نہ تھی لاکھوں روپے عوام سے ٹیکس کی صورت میں جمع کئے جاتے تھے تاریخ میں تو ایک ایسا بادشاہ بھی گذرا ہے جس کا نام ابو جعفر منصور تھا اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ میں نے تمہارے لئے ٹیکسوں کا اتنا پیسہ اکٹھا کردیا ہے کہ تم بغیر کوئی کام کئے دس سال تک شاہانہ زندگی گذار سکتے ہو ایک مزاح نگار ف لکھتا ہے کہ اس دور سے ہی کام نہ کرنے اور شاہانہ زندگی گزارنے کا آغاز ہوا اسکا تو یہ بھی نظریہ ہے کہ اگر آپ میں عوامی روح زندہ نہیں توآپ ویلے ہیں اب اقبال کی شاعری کا مطالعہ کریں تو وہ بھی قوموں کی ترقی کے لئے انقلابی روح پر زور دیتا ہے اسکے فلسفہ کا مقصد عوام کی کی غربت اور افلاس سے روحیں نہیں بلکہ ان کے اندرکچھ کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہے اقبال کا ایک شعر ہے
جہان تازہ کی ہے افکار تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ وخشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
اقبال کی تعلیمات کا سلسلہ افلاطون سے جا ملتا ہے افلاطون کا خیال تھا کہ ایک فلسفی کو حکمران ہونا چاہیے یا ایک حکمران کو فلسفی ھو نا چاہئے لیکن ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ایک حکمران کو عوامی ہونا چاہئے اور وہ حضرت عمر کی طرح ساری رات گریہ زاری میرے اور اللہ سے دعا کرے کہ میرے ہاتھوں ظلم نہ ہو۔
اقتصادی ترقی کیلئے ضروری نہیں کہ آپ کے پاس بہت سے جدید آلات ہوں آپ کی عوام کے لیے مثبت سوچ راستے ہموار کرتی ہے وگرنہ جدید سامان بھی کوڑے کا ڈھیر ہےبنیادی بات یہ ہے کہ نہ ہم گڈ گورننس کے تصور کو سمجھ پائے نہ سمجھنا چاہتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن