مفلوج معاشرے اور اقتصادی ترقی

Apr 27, 2024

فہمیدہ کوثر

فہمیدہ کوثر 

ایک مغربی مفکر اسپینگلر نے لکھا کہ وقت اور ضرورت کے ساتھ معاشرہ اور اس کے ارباب اختیار سیکھ جاتے ہیں کہ معاشرہ کن راستوں کو اختیار کرکے اقتصادی ترقی کی طرف بڑھتا ہے لیکن تاریخ نے تو ایسی قوموں کا بھی حوالہ دیا جہاں بے بسی لاقانونیت نے پنجے گاڑے رکھے نہ عوام کی حالت بدلی اور نہ حکمرانوں میں شعور آیا اس مسئلہ پر جب کارل مارکس نے روشنی ڈالی تو وہ اس نکتہ پر پہنچا کہ تبدیلی اجتہاد سے آتی ہے اور اس کیلئے جرا¿ت مند تخلیقی ذہن کی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کا۔ دور تھا وہ نہ صرف منصوبہ ساز تھے بلکہ ان کی ترقی کا دائرہ کار عوام کے گرد گھومتا تھا ستتر سالوں سے ھم ایک ہی مدار میں کیوں گھوم رہے ہیں اسکی ایک وجہ تو تعلیم یے تعلیم تو دور کی بات ھمارے بچپن کے کھیلوں میں بھی نظر آتی ہے کسی کو یاد ہوگا وہ کھیل بادشاہ کا وزیر کون۔ آواز آتی تھی جی حضور اس جی حضوری میں کہیں نہ کہیں فسطائیت کا شائبہ موجود تھا ھم بڑے ہو گئے کھیل وہی رہا وقت کے ساتھ ساتھ ذاتی مفادات نے قومی مفاد کو نگل لیا کہا جاتا ہے کہ جب جلال الدین اکبر نے فتح پور سیکری میں پہلا مدرسہ قائم کیا تو کتنے عرصے تک آباد نہ ہو سکا وہ یقیناً یہ سوچتا تھا کہ ان غلاموں کو تعلیم دینے کی کیا ا فادیت کام تو چل رہا ہے پھر اس کے بعد میں بھی آنے والے حکمرانوں نے بھی سڑکوں کی تعمیر محلات کی تعمیر اور شہزادوں شہزادیوں کے لئے خوبصورت تفریح گاہیں تعمیر کروائیں ان کا نظریہ یہ ہوگا کہ چھوٹے موٹے کام ان کے شایان شان نہیں وہ حکمران ہیں لہذٰا حیثیت اور مقام کو ملحوظ خاطر رکھنا لازم ہے پیسے کی انکو پروا نہ تھی لاکھوں روپے عوام سے ٹیکس کی صورت میں جمع کئے جاتے تھے تاریخ میں تو ایک ایسا بادشاہ بھی گذرا ہے جس کا نام ابو جعفر منصور تھا اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ میں نے تمہارے لئے ٹیکسوں کا اتنا پیسہ اکٹھا کردیا ہے کہ تم بغیر کوئی کام کئے دس سال تک شاہانہ زندگی گذار سکتے ہو ایک مزاح نگار ف لکھتا ہے کہ اس دور سے ہی کام نہ کرنے اور شاہانہ زندگی گزارنے کا آغاز ہوا اسکا تو یہ بھی نظریہ ہے کہ اگر آپ میں عوامی روح زندہ نہیں توآپ ویلے ہیں اب اقبال کی شاعری کا مطالعہ کریں تو وہ بھی قوموں کی ترقی کے لئے انقلابی روح پر زور دیتا ہے اسکے فلسفہ کا مقصد عوام کی کی غربت اور افلاس سے روحیں نہیں بلکہ ان کے اندرکچھ کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہے اقبال کا ایک شعر ہے
جہان تازہ کی ہے افکار تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ وخشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
اقبال کی تعلیمات کا سلسلہ افلاطون سے جا ملتا ہے افلاطون کا خیال تھا کہ ایک فلسفی کو حکمران ہونا چاہیے یا ایک حکمران کو فلسفی ھو نا چاہئے لیکن ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ایک حکمران کو عوامی ہونا چاہئے اور وہ حضرت عمر کی طرح ساری رات گریہ زاری میرے اور اللہ سے دعا کرے کہ میرے ہاتھوں ظلم نہ ہو۔
اقتصادی ترقی کیلئے ضروری نہیں کہ آپ کے پاس بہت سے جدید آلات ہوں آپ کی عوام کے لیے مثبت سوچ راستے ہموار کرتی ہے وگرنہ جدید سامان بھی کوڑے کا ڈھیر ہےبنیادی بات یہ ہے کہ نہ ہم گڈ گورننس کے تصور کو سمجھ پائے نہ سمجھنا چاہتے ہیں۔

مزیدخبریں