”شیربادشاہ ضروری“

میرا ایک شعر ہے۔ 
انا الحق کہہ کے جو منصور ہوا 
سولی چڑھنا تو پھر ضروری تھا
ڈری بیٹھی ہوں کہ اس شعر کے نتیجے میں مجھے شیر کی خورا ک نہ بنادیا جائے کیونکہ شیر ہی جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے۔ لیکن میں بادشاہ ِ کائنات کے علاوہ کِسی سے نہیں ڈرتی جو کچھ کہوں گی سچ کہوں گی اور سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گی۔ بہر حال الیکشنز اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ یہ الیکشنز چھ ایکشنز پر مشتمل ہوتے ہیں اور یہ تو سب کو علم ہے کہ کسی بھی کھیل میں چھکا کامیابی کی علامت ہوتا ہے۔ اِن چھ ایکشنز کے نام گرامی یہ ہیں۔ 
1. دھونس     2.دھاندلی     3. بے ایمانی 4. پیسہ     5. مارکٹائی     6. جھوٹ 
میرے ملک میں الیکشن کی اس جھوٹی ریت و روایت کو نبھانے کے لیے جو کچھ کیا جاتا ہے اس کے لیے بھی میرے دو اشعار سن لیں :
سج گیا بازار پھر ایمانوں کا 
ہر طرف شور بھاو تاو کا 
کھوٹے سکے ہیں سارے گردش میں 
سَچا سودا کہاں ملے گا اَب
بہر حال الیکشنز کے فاتحین جو اختیارات کے طاقتور گھو ڑ ے پر بیٹھ گئے ہیں ملکی حا لا ت کا نو ٹس لیں جہاں بھو کے عو ا م نے چوری، ڈکیتی، راہزنی، نوسر با زی اور قتل و غار ت کو پنجگانہ عبادت کی طر ح اخیتا ر کر لیا ہے۔ یہ با اختیار گھڑ سوار تا ریخ کے اس واقعے کو بھی ذہن میں رکھیں کہ ہلا کو خا ن جو ہوسِ حکومت میں چوبیس میں سے بیس گھنٹے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھتا تھا ایک دن اپنے اسی انتہا ئی تر بیت یا فتہ اور وفا دار گھوڑ ے کی پیٹھ پر انچی چھلانگ لگا کر جب اس کی پیٹھ پر بیٹھا تو گھو ڑ ے نے ایسی چوکڑ ی بھری کہ ہلا کو خا ن سنبھل نہ سکا اور طاقتور گھوڑا اسے میلو ں تک گھسیٹتا چلا گیا او ر ہلاکو خا ن ہلا ک ہو گیا۔
 چونکہ میں قرآ ن کی ریسرچ پر مامور ہوں تو اس کے احکامات اپنے لوگوں تک پہنچانے کی پابند ہوں کہ " شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں امیری بات "۔ لیکن مجھے علم ہے کہ ہم وہ لاعلم اور جاہل مخلوق ہیں کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی بات بھی ہمارے دل و دماغ میں نہیں اتر سکی کیونکہ ہمارے دل و دماغ دنیاوی معاملات اور خواہشات سے اِس قدر بھر چکے ہیں کہ ان میں کسی دوسری بات کے داخلے کی گنجائش ہی نہیں۔ لیکن یاد رہے کہ ہم نے احکامات ِ خداوندی پر مشتمل قانون کی ایک مکمل کتاب اور ضابطہ حیات کے ایک مکمل نصاب کو زندگی کے سکول بیگ میں جس طرح مستقل بند کردیا ہے، اِسے انسان اپنی ہنر مندی یا بہادری نہ سمجھے۔ جب اللہ پا ک قادر مطلق یہ بند کھولنے پر آتا ہے تو عذابوں کی صورت میں زمین و آسمان کے بند کھو ل دیتا ہے۔ تاریخ اِن عذابوں کی جو تفصیل بتاتی ہے وہ حیران کن ہے۔ جب ایک قوم نے حضرت موسیٰؑ کی ان تختیوں کو جو احکا ما تِ الٰہی پر مشتمل تھی ہوا میں اچھال دیا تو قادرِ مطلق نے ان پر ایک ایسی مسموم اور طاقتور ہوا بھیج دی کہ ستون برابر لمبے چوڑے منکرین درخت کے تنوں کی طرح ٹوٹ ٹوٹ کر زمین پر گرے اور پتھروں کی ایسی بارش برسادی کہ ہر پتھر پر ہر ہر منکر کا نام کنند ہ تھا گویا وہ ایک تصدیقی زخم تھا جو ان کے ماتھے پر ثبت ہوگیا۔
اِسی طر ح عذاب ِ الٰہی کا ایک اور حیران کن مظاہرہ انسانوں کے سامنے عیاں کیا گیا جس پر انسانی تاریخ حیرت میں گم صم ہے۔ جب حضرت ابراہیم ؑ کے دور میں ہم جنس پرستی کی بے راہ روی اپنی انتہا کو پہنچی اور ان کا پورا قبیلہ ان کی بات سننے سے انکاری ہوگیا اور وہ اس حرکت سے باز نہ آئے تو پھر قادرِ مطلق اس طرح حرکت میں آیا کہ زمین ایک خوفناک زلزلے کی صورت میں لرزنے لگی اور ان سب کو زندہ نگل لیا۔ سینکڑوں سال بعدآثارِ قدیمہ کے ماہرین یہ دیکھ کر حیرت میں کھڑے کے کھڑے رہ گئے کہ سینکڑوں سال گزرنے کے باوجود وہ سب انسان جنھیں دوسرے زلزلے کے بعد زمین نے سطح پر اگل دیا تھا وہ سب ثابت سالم پڑے تھے۔ صرف روح نہیں تھی مگر وہ سب اسی پوز اور زاویوں میں تھے جب وہ زمین پر جس حرکت میں مصروف تھے۔ 
انسانوں کی بے راہ روی اور بد اعمالی کے جرم میں عذابِ الٰہی کے جو جو مظاہر تاریخ میں محفوظ ہیں ہم انسانوں نے کبھی بھی اپنے اوپر لاگو اِس فرد جرم کو پڑھنے کی تکلیف گوارہ نہیں کی۔ حاکمیت اور اختیار کے نشے میں انسان یہ بھول جاتا ہے کہ ان کے اوپر بھی ایک حاکم بااختیار ہے اور جسکا دائرہ اختیار اور طاقت پورے کرہ ارض کو گھیرے ہوئے ہے۔ ہم اسکا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں؟ جب مغلیہ دور کے حاکم اپنے آپ کو بہت طاقتور سمجھتے تھے اور اپنی حاکمیت کو نسل در نسل اتارتے گئے تو تاریخ نے آنکھیں کھول کھول کر ان کا انجام دیکھا۔ ہیرے موتیوں سے آراستہ بھاری بھرکم لباس کانوں اور ہاتھوں میں قیمتی ہیروں کے آویزے اور کنگن پہنے جب وہ حاکم تخت پر بیٹھتے تھے تو سمجھتے تھے کہ کون ان سے یہ سب کچھ چھین سکتا ہے۔ اور بظاہر خدا اور رسول سے محبت کے بھی دعویدار تھے لیکن منافقت یہ تھی کہ اس تخت و تاج کے اختیارات برقرار رکھنے کےلئے باپ بیٹے پر تلوار سونت لیتا تھا اور بیٹا باپ پر لشکر کشی کردیتا تھااور بھائی اپنے بھائی کی آنکھیں نکال کر قید بامشقت میں ڈال دیتا تھا۔ ایک حاکم بااختیار شخصی آزادی کے اتنے قائل تھے کہ اپنی انگننت مہارانیوں میں سے باری باری ایک مہارانی کو اپنے ساتھ تخت پر بٹھاتے تھے اور شخصی آزادی کے تحت آنے والی آزادی کی وجہ سے سر ِعام اس سے اٹکھیلیاں بھی کرتے رہتے تھے۔ 
بہر حال ہم اپنی بات کریں۔ اپنے حاکموں کو یہ یاد دلادوں کہ اپنے اپنے اعمال پر نظر ثانی کی تکلیف گوارا کریں۔ ہم نے بھی قادرِ مطلق کی ایک ناراضگی جو کرونا کی صورت میں ایک عذابِ الٰہی تھا، ماضی قریب میں ابھی ابھی بھگتی ہے۔ الیکشن جیتنے کی خوشی میں ابھی تک جو ڈھول پیٹے جارہے ہیں اگر حاکم اعلیٰ ہم سے ناخوش ہوگیا تو پھر ڈھول پیٹنے والی اس ڈنڈی سے ہمیں بھی وہ پیٹ سکتا ہے۔ الامان و الحفیظ۔

ای پیپر دی نیشن