گندم کی قیمت اور غذائی بحران

پنجاب حکومت کی جانب سے اس سال گندم کی امدادی قیمیت صرف 3ہزار9سو روپے مقرر کی گئی ہے،جبکہ سرکاری سطح پر کسانوں سے گندم خریدنے کے لئے کوئی باقاعدہ ہدف بھی مقرر نہیں کیا گیا (حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے پاس وافر گندم موجود ہے تو پھر اس کا فائدہ عوام کو کیوںنہیں ہو رہا)، پنجاب حکومت کی جانب سے اس سال سرکاری باردانہ کے اجرا کی حد12 ایکڑ سے کم کرکے 6 ایکڑ مقررکی گئی ہے، ماضی میں فی ایکڑ 10 بوری باردانہ دیا جاتاتھا، جیسے اس مرتبہ کم کرکے محض 6 بوری کر دیا گیا ہے، گزشتہ سال کسانوں کو فی بوری 60 روپے ٹرانسپوٹیشن چارجز دئے گئے تھے، جنہیں اس مرتبہ کم کرکے 30 روپے فی بوری کر دیا گیا ہے(جبکہ ایک سال کے دوران مہنگائی کی وجہ سے ٹرانسپوٹیشن چارجز دگنے ہو چکے ہیں )۔گزشتہ برس پنجاب حکومت نے کسانوں سے 45 لاکھ ٹن گندم خریدی تھی،2023 کے لئے گندم کی سرکاری خریداری کا مجموعی ہدف 78 لاکھ ٹن مقرر کیا گیا تھا،تاہم اس مرتبہ پاسکو 14 لاکھ ، سندھ 10 لاکھ جبکہ بلوچستان 50 ہزار ٹن گندم کسانوں سے خریدے گا،یعنی مجموعی طورپر ساڑھے 24 لاکھ ٹن گندم خریدی جائے گی، وزارت نیشل فوڈ سیکورٹی نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کومتنبہ کیا ہے کہ گندم کے مجوزہ اہداف صوبائی ضروریات پوری کرنے کے لئے ناکافی ہیں اور اس بار ہدف کیوں نہیں رکھا گیا تاکہ آٹا مافیا، فلور ملز مالکان کو نوازا جائے۔اب ہو کیا رہا ہے کہ کسان نے اگلی فصل کیلئے زمین کی بوائی بھی کرانی ہے گندم کاٹ کر وہ اسے مافیا کی طرح سٹور تو کر نہیں سکتا اس لئے وہ اونے پونے داموں اپنی گندم بیچنے پر مجبور ہے جسے آڑھتی مافیا فلور مافیا کے ساتھ مل کر خرید رہا ہے تاکہ بعد میں جب گندم کا بحران پیدا ہو تو اس سے فائدہ اٹھایا جائے اور باردانہ کی حد بھی کم کر کے چھ ایکڑ کر دی گئی ہے اب جس کے پاس سات ایکڑ زمین ہے وہ بھی 500 روپیہ فی بوری خریدنے پر مجبور ہے۔
اے سی ڈی سی حکومت کو اندھیرے میں رکھ کر مافیا کے ساتھ مل کر کسان کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ پاکستان میں غذائی بحران پیدا کیا جا سکے۔
دوسری جانب کسان پنجاب حکومت کی اس نئی گندم پالسی کو اپنے معاشی قتل عام سے تشبیہ دے رہے ہیں، کسانوں کا موقف ہے کہ آٹا مافیا اور مڈل مین کو فائدہ پہنچانے کے لئے کسانوں کا معاشی استحصال کیا جا رہا ہے، پنجاب حکومت کی جانب سے گندم نہ خریدنے کے فیصلے سے گندم کی اوپن مارکیٹ کریش کر جائے گی، جس کی وجہ سے حکومت کی مقرر کردہ امدادی قیمت 3 ہزار9 سو روپے ملنا بھی نہ ممکن ہو جائے گا( اور ایسا ہو رہا ہے اس وقت گندم اوپن مارکیٹ میں تین ہزار روپے فی من تک گر چکی ہے)۔
 حکومتی وزراءاور بیوروکریسی کی ملی بھگت سے ایک نیا بحران پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے نتیجے میں پنجاب میں گندم کی قیمتیں ریکارڈ کم ترین سطح پر آ چکی ہیں اور کسان اس وقت بے چارگی کے عالم میں مریم نواز کی جانب دیکھ رہا ہے۔ کاشتکار تنظیموں نے احتجاجی تحریک شروع کرنے کی دھمکی دے ڈالی ہے۔
اب حکومت نے 3900 روپے فی من گندم کی امدادی قیمت مقرر تو کر دی ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ کسانوں کو وہ بھی نہیں مل رہی۔ دوسری جانب جب ہم اخراجات پر نظر ڈالتے ہیں تو خاص طور پر چونکہ کھاد کی قیمت ایک سال کے دوران سرکاری نرخوں سے بھی زیادہ بڑھ چکی ہے اور کسان بلیک میں کھاد خرید کر گندم اگا رہا ہے، ڈیزل اور بجلی کے چارجز کا بھی یہی حال ہے اور کسان بجلی کے بل ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ تمام اخراجات کو شامل کرنے کے بعد، گندم کی فی ایکڑ قیمت کم از کم امدادی قیمت سے کہیں زیادہ ہے جس سے کسانوں کو بہت زیادہ نقصان ہورہا ہے۔
 اس صورتحال میں خدشہ ہے کہ گندم کی کمی کے باعث کسان دیوالیہ ہو جائیں گے۔کسان دشمنی کا مظاہرہ پنجاب کے کسانوں کے ساتھ ملک کو ایک نئے بحران میں دھکیل سکتا ہے جس پر ابھی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔کیوں کہ ہمارے ہمسائے میں کسانوں کو تین سو یونٹ بجلی فری دی جا رہی ہے جبکہ ہمارے ہاں ایک یونٹ سو روپے سے زائد کا ہو چکا ہے، اسی طرح کسان سرکاری ریٹ سے زائد پر یوریا کھاد کی بوری لائنوں میں لگ کر بلیک میں حاصل کر رہا ہے، ڈیزل کا ریٹ ایک سال میں کہاں پہنچ چکا ہے۔اس گندم بحران میں یقینا صوبائی وزیر خوراک کو حکومت کو درست صورتحال سے آگاہ کرنا ہو گا اور متحرک ہونا ہو گا اور کسانوں کیلئے کردار ادا کرنا ہو گا کیوں کہ جب گندم خریدنے کیلئے حکومت ہدف مقرر نہیں کرے گی، کسان کو اس کی پیداواری لاگت نہیں دے گی تو لازم مافیا اس صورتحال سے فائدہ اٹھائے گا کیوں کہ ہم نے ماضی میں بھی دیکھا ہے کہ پاکستان کو ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم باہر سے منگوانا پڑتی ہے اور جب اپنے کسان کو اس کی پیداواری لاگت نہیں دی جا رہی تو باہر سے مہنگے داموں گندم امپورٹ کر کے کس کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے اس پر حکومت کو فوری طور پر ایکشن لینا ہو گا کیوں کہ ماضی قریب میں پاک فوج اور حکومت نے مل کر ایک گرین انیشیٹو پروگرام بھی شروع کیا تھا اور اس طرح کے ہتھکنڈے لگتا ہے کہ اس گرین انیشیٹو کو ناکام بنانے کی سازش بھی ہو سکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...