مہنگائی نے پاکستانیوں کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے

مڈل کلاس پاکستانیوں کی بھی کوئی زندگی ہے۔ شرٹ خریدو تو شوز خراب، شوز خریدو تو پینٹ خراب، پینٹ خریدو تو شرٹ خراب اور اگر سب خریدو تو حالات خراب۔ بس اسی سرکس کے سرکل میں ہم گھوم کر رہ گئے ہیں۔ مزہ، تفریح، کس بلا کا نام ہے بھئی۔ حالیہ مہنگائی نے نیم پاگل بنا دیا ہے۔
یوں تو مہنگائی کا ڈنکا ساری دنیا میں بج رہا ہے لیکن ہمارے ملک میں بازگشت کچھ ذیادہ ہی سنائی دے رہی ہے۔ حکمران بھی یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ "مہنگائی بہت ہے اور ہمیں عوام کے ساتھ ہمدردی ہے"۔ مگر مہنگائی کنٹرول کرنے کی فکر اشرافیہ کو نہیں۔ سارا بوجھ غریب عوام پر ہے۔ بس یوں سمجھیئے کہ مہنگائی کا رونا بس فیشن یا ٹرینڈ بن گیا ہے۔ اس کے تدارک کی پالیسی کوئی نہیں بناتا۔ اگر کوئی حل پیش بھی کردے تو اس پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔
دنیا نے بجلی پر ٹرینیں ، کاریں ،بسیں چلا دیں اور ہم شاید اس بار پنکھا بھی نہ چلا سکیں کیونکہ حالیہ خبر ہے کہ بجلی کی قیمت میں 2 روپے 94 پیسے فی یونٹ مزید اضافے کا امکان ہے۔ قیمت میں اضافے سے صارفین پر ایک ماہ میں 20 ارب روپے سے زائد کا بوجھ پڑے گا۔قارئین! یہ سن کر جسم میں بجلی سی ڈور گئی کہ پاکستان میں ہر روز کچھ نہ کچھ مسلسل مہنگا ہو رہا ہے جس کے باعث پاکستانیوں کا معیار زندگی ہی تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ ایسے افراد کیا کریں کہ جن کی تنخواہیں آج بھی وہی ہیں جو کل تھیں۔؟؟؟
مڈل کلاس طبقہ سفید پوش طبقے میں ضم ہو چکا ہے اور سفید پوش طبقہ خط غربت کو کراس کر چکا ہے جبکہ بھکاریوں کے ترستے چہروں سے ٹپکتی ہوئی مایوسی دیکھنے کے بعد کھانا کھانے کو بھی جی نہیں چاہتا۔ تقریباً اکثر گھروں میں یہی بات موضوعِ گفتگو ہے کہ اس بپھری مہنگائی میں خرچہ کیسے چلے گا۔ اب کیا ہوگا۔ حالات تو بدترین ہوتے جا رہے ہیں۔
غریب جب سبزی لینے بازار جاتا ہے تو اس کی حواس باختہ حالت دیکھ کر بینگن اور نیلا پڑ جاتا ہے ، ٹماٹر اور لال ہو جاتا ہے، مرچ اور تیکھی ہوجاتی ہے۔ پھلوں کو ہاتھ لگائے تو وہ زور سے اس کو کاٹتے ہیں۔ بیچارہ منہ لٹکائے واپس آ جاتا ہے۔ پھر سوائے غم کھانے کے کچھ نہیں بچتا۔
قارئین! جب کوئی اینکر مائیک تھامے عوام میں جاتا ہے تو وہ اینکر پرسن کو ہی مسیحا گرداننے لگتے ہیں کہ شاید ہماری کمزور آواز ایوانِ بالا تک پہنچ جائے۔ بھاڑ میں جائے پارٹی بھاڑ میں جائے سیاست۔ انہیں تو فقط اہل و عیال کے کھانے کی پڑی ہے۔ 
غریبوں کا مقدر پستیاں ہیں
امیروں کی علیحدہ بستیاں ہیں
ابھی تک اپنے پاکستان ہیں دو
کہیں غربت کہیں خرمستیاں ہیں
ابھی ہر چور صادق اور امیں ہے
کوئی تبدیلی آئی ہی نہیں ہے
اس جان لیوا مہنگائی نے سب سے ذیادہ دستر خوان کو متاثر کیا ہے۔ لوگوں نے کھانوں میں گھی کا استعمال انتہائی کم کر دیا ہے کہ ان کی زبانیں مزیدار ، ٹیسٹی کھانے کے لیے ترس گئی ہیں۔ کبھی پیاز ختم تو کبھی ٹماٹر۔۔۔لہسن ، ادرک کو تو ہاتھ نہیں لگتا۔ ایسے میں سالن کی گریوی کیسے بنے؟؟؟ خواتین کے لیے اتنے کم بجٹ میں مزیدار کھانا بنانا کسی لنکا ڈھانے سے کم نہیں۔ بچوں کی نشوونما کے لیے انڈے، دودھ ، گوشت بنیادی ضروریات میں سے ہیں مگر ذرا سوچیئے کہ دال کھانا مشکل ہے تو ایسے میں والدین کیسے ان کا انتظام و انصرام کریں۔ ایک صاحب کا کہنا تھا کہ وہ کٹنگ دو مہینے بعد کرواتے ہیں کہ وہی پیسے گروسری میں کچھ خریداری میں کام آ جائیں گے۔ بچوں کی پڑھائی میں کوئی رکاوٹ نہ آئے اسی حوالے سے والدین نے کچھ فوڈ آئٹمز ہی کٹ کر دی ہیں۔ گھر کے بزرگوں کی ادوایات دن بدن مہنگی سے مہنگی ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ ایسے میں وہ اپنے آپ کو معاشرے کا بوجھ سمجھنے لگ گئے ہیں۔ وجیہ ثانی نے کیا خوب منظر کشی کی ہے
حاکم وقت کو کیا پتہ 
باپ بوڑھا ہے۔۔۔ بیمار ہے
بیٹا مشکل سے دوچار ہے
گیس بجلی کے بل بڑھ چکے
قرض ہیں کہ کئی چڑھ چکے
حال یہ ہے دواو¿ں کے دام 
پانچ چھے سو گنا بڑھ چکے
رات نے آنکھ جھپکائی ہے 
پر دوائی نہیں آئی ہے
حاکم وقت کو کیا پتہ کتنی مہنگائی ہے
کتنی مہنگائی ہے۔۔۔
 آج کل کے دور میں رشتہ داری کو بھی بڑا زور کا جھٹکا لگا ہے۔ پٹرول ہی اتنا مہنگا ہے کہ اب لوگ لسٹ بنا لیتے ہیں کہ جہاں جانا ہے وہاں ایک ہی دن جایا جائے کہ اتنا پٹرول کون افورڈ کر سکے۔ سیانے ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ عشق و شادی اپنے شہر میں ہی کیجئے "پٹرول بہت مہنگا ہے "۔ لوگ اپنے دوست احباب کو دعوتوں پر مدعو کیا کرتے تھے۔ مگر اب مختصر سے مختصر ترین سرکل کو ترجیح دی جا رہی ہے۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ رات سونے سے قبل کسی چیز کا ریٹ معلوم کریں وہ چار سو روپے ہوگا اور صبح اٹھ کر وہ چیز خریدیں تو وہ 500 روپے میں ملے گی کہ چند گھنٹوں میں اس کا ریٹ 100 روپے بڑھ چکا ہوگا۔
کڑوا سچ تو یہ ہے کہ حکمرانوں نے ہمیں منافع خور مافیاز کے حوالے کر دیا ہے۔ ہم پاکستانی اپنے آپ کو سیاسی یتیم سمجھتے ہیں۔ ان منافع خوروں اور ملاوٹ کرنے والوں نے "اتّ" مچائی ہوئی ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ ہم میں اتنا برداشت کا مادہ کہاں سے آ گیا کہ ہر ظلم و جبر کو سہنا معمول بن چکا ہے۔ ایسے میں انقلاب نہیں، تباہی آیا کرتی ہے۔
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن