عزت و آبرو انسان کے لیے ایک بہت ہی نایاب خزانہ ہے جسے حاصل کرنے کے لیے انسان بہت زیادہ محنت کرتا ہے۔ہر انسان عزت و آبرو کا تحفظ چاہتا ہے ۔ کوئی بھی شخص یہ نہیں چاہتا کہ اس کی معاشرے میں جو عزت ہے وہ خراب ہو اور وہ لوگوں کی نظروں سے گر جائے ۔طاقت کی وجہ سے کسی سے عاجزی کروالینا ۔ اقتدار میں رہ کر کسی سے احترام کروا لینا اور ظلم و ستم کے بل بوتے پر اپنی تکریم کروا لینا عزت نہیں بلکہ حقیقی عزت وہ ہے جو بغیر کسی جبر کے کوئی دل کی گہرائیوں سے کرے اور یہ پوری زندگی پر محیط ہو ۔
انسان تخت پر بیٹھا ہو یا پھر کٹیا نشین ہو ، وہ کسی اعلی منصب پر ہو یا ایک عام انسان کی طرح رہ رہا ہو ہر حال میں اس کی عزت میں فرق نہ آئے تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے عزت و تکریم کی دولت سے مالا مال فرمایا ہے ۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص صاحب اقتدار ہے اور اس کی عزت و تکریم کی جائے اور جب اقتدار ختم ہو جائے تو عزت و تکریم بھی ختم ہو جائے تو اس کا مطلب ہے یہ حقیقی عزت نہیں ۔
عزت ایسی چیز نہیں جو بازار سے مل جائے ، یا پھر عزت زبر دستی چھین لینے والا سرمایہ نہیں بلکہ حقیقی عزت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے حاصل ہوتی ہے اور بارگاہ الٰہی میں مقبولیت کی دلیل ہے ۔ ایک بندہ جتنا زیادہ اللہ تعالی کے قریب ہو تا ہے اس کی عزت مخلوق کی نظر میں اتنی زیادہ بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ عزت کا طالب تو ہر انسان ہوتا ہے لیکن وہ عزت حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں سے عزت طلب کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ ذلتوں کی دلدل میں دھکیل دیا جاتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے :
” منافقوں کو درد ناک عذاب کی خبر دیجیے جو اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنے دوست بناتے ہیں کیا یہ ان کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں بیشک تمام تر عزت اللہ ہی کے لیے ہے “۔ ( سورة النسائ)
انسان معزز بننے کے لیے دوستوں سے وفاداری نبھاتا ہے اور اس میں اتنا آگے نکل جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ناراض کر کے اپنے دوستوں کو خوش رکھنا چاہتا ہے ۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ میری عزت اسی صورت باقی رہے گی اگر میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیوفائی نہ کروں ۔ لیکن اللہ کی نافرمانی کر کے عزت بچاتے ہوئے وہ اللہ تعالیٰ کے اس قانون کو بھول جاتا ہے کہ جو کسی ظالم کی مدد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس ظالم کو اس پر مسلط کر دیتا ہے ۔