عمران خان نے سعودی عرب سے متعلق بیان پر میری سرزنش کی: شیر افضل مروت۔
واہ ! شیر افضل مروت نے شیروں والی بات کی ہے۔عمران خان نے ان کی سرزنش کی اس پر برا منانے کی بجائے وہ بڑے فخر سے بتا رہے ہیں کہ ہاں خان صاحب نے مجھے ڈانٹا۔کوئی جلسہ ہو جلوس ہو پارٹی کی میٹنگ ہو قومی اسمبلی کا سیشن ہو یا کہیں بھی ہوں شیر افضل مروت ہر کہیں پٹاخے چلاتے اور کھڑاک کرتے نظر آتے ہیں۔ان کے دبنگ لہجے کو دیکھ کر برملا کہا جا سکتا ہے کہ۔
کھڑ ک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیاں
کھڑکیوں کے کھڑکنے سے کھڑکتا ہے کھڑک سنگھ
اپنے دور میں کھڑک سنگھ بھی ایسا ہی ہوگا۔وہ مہاراجہ پٹیالہ کا ماموں تھا۔ اس نے ریاست کی امن و امان کی ماڑی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اپنے بھانجے کو سیشن جج کی خالی اسامی پر تعینات کرنے کی بات کی۔مہاراجہ نے ان کو چٹھی دے کر انگریز وائسرائے کے پاس بھیج دیا۔ وائسرائے نے انٹرویو کیا۔ ان سے تعلیم پوچھی تو کھڑک سنگھ نے کہا تسی مینو جج لانا ہے کہ سکول ماسٹر ؟ وہ جج لگ گئے باقی پھر پتہ ہی ہے کہ کھڑک سنگھ نے پہلا ہی فیصلہ قتل کیس کا کیسا کیا تھا۔ چار قاتلوں اور ان کے وکیل کو پھانسی لگا دی تھی۔شیر افضل مروت سرزنش اور ڈانٹ کا واقعہ بڑے فخر سے سنا رہے ہیں جیسے ایک میر عالم دوسرے کوچودھری سے اپنی قربت اس طرح جتا رہا تھا کہ آج چوہدری صاحب نے مجھے سب کے سامنے فِٹے منہ کہا ہے۔
٭....٭....٭
علامہ طاہر اشرفی دوبارہ رابطہ عالم اسلامی کی مجلس اعلیٰ کے رکن منتخب۔
ہمہ وقت مصروف رہنے والے طاہر اشرفی پورے دو ماہ سے فارغ تھے۔نئی حکومت آئی ہے۔ اس کے کرتا دھرتا لگتا ہے رویت ہلال کمیٹی سے آ کے یہاں بیٹھ گئے ہیں جن کو دور بین سے بھی چاند نظر نہیں آتا۔ دوسروں کے دیکھے ہوئے چاند کو وہ مانتے نہیں ہیں۔علامہ صاحب سدا بہار انقلابی ، طلسماتی حاکمانہ شخصیت ہیں۔حکومت میں رہنے کا گر جانتے ہیں۔ اقتدار میں آنے والے حکمرانوں کوبھی ادراک ہوتا ہے کہ کس کو ساتھ لے کر چلیں تو ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔اشرفی صاحب کی خدمات سے استفادہ عمران خان کے پورے دور کے دوران کیا گیا۔شہباز شریف کی سربراہی میں پی ڈی ایم کی حکومت بنی تو اس کو بھی علامہ صاحب کے ساتھ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ نگران حکومت آئی تو ان کو ایسے سنہری مشورے دیئے کہ اپنی مدت کے ساتھ ساتھ نگرانوں کی حکمرانی بھی 90 دن سے ڈیڑھ سال تک پھیل گئی۔آج کی حکومت کی نظر ان پر کیوں نہ پڑسکی؟ یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ان کی فراغت کو دیکھتے ہوئے ان کو ایک بار پھر رابطہ عالم اسلامی کی مجلس اعلیٰ کا ممبر منتخب کر لیا گیا۔ رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل محمد بن عبدالکریم العیسی کی ہدایت پرمرکزی سیکرٹریٹ مکہ المکرمہ نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔اب ہو سکتا ہے کہ علامہ صاحب اپنے آفس میں باقاعدہ بیٹھنے کے لیے وہیں چلے جائیں۔ جہاں رہیں راضی باضی رہیں۔آج کی حکومت کواب ان کی ضرورت پڑے تووہ نہیں ملیں گے۔ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم۔
آئے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
کچھ مخالفین ہو سکتا ہے علامہ صاحب کو نقش کہن سمجھ کر مٹانے کی سازشیں کر رہے ہوں مگر یہ ایسے چراغ ہیں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔
٭....٭....٭
چاہتا ہوں امبانی خاندان کی شادی جیسی تقاریب پاکستان میں بھی ہوں: کامران ٹیسوری گورنر سندھ۔
بھارت کے امیر ترین شخص امبانی کے بیٹے کی شادی ابھی ہوئی نہیں مگر تقریبات جاری ہیں اور ان پر کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپیہ اب تک لگ چکا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔کچھ امیر لوگ اپنے روپے پیسے کی نمائش امبانی کی طرح کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کی ایسی ہی حسرت ہوتی ہے لیکن پلے کچھ نہ ہونے کے باعث حسرتیں ناتمام رہ جاتی ہیں۔ لیکن جن کے پلے بہت کچھ ہوتا ہے اور وہ اپنے نام کی دولت کی نمود و نمائش بھی کرنا چاہتے ہیں،امبانی کی طرح ہی کرتے ہیں۔ٹیسوری کی طرف سے پاکستان میں بھی امبانی کی طرح شادیوں کی تقریبات کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔ان کی یہ خواہش یا حسرت، نا تمام اس لیے نظر نہیں آتی کہ کوئی اور ایسی تقریبات کا انعقاد کرے نہ کرے، ٹیسوری صاحب خود تو کر سکتے ہیں۔ امبانی نے اپنے 30 ہزار ایکڑ کے فارم ہاو¿س پر 50 ہزار عام طبقے سے تعلق رکھنے والے مہمانوں کی تواضع کی تھی۔ویسے کامران ٹیسوری خبروں میں رہنے کا فن جانتے ہیں۔ گورنر کبھی بڑے با اختیار ہوا کرتے تھے لیکن اب گورنر اور صدر اختیارات کے حوالے سے صرف ہاو¿س نشین ہو کر رہ گئے ہیں۔ فضل الہی چودھری بھی ایسے ہی بے اختیار صدر تھے۔ وہ شاید اپنے آپ کو ایوان صدر کا قیدی سمجھتے تھے ایوان صدر کے باہر ہر صبح لکھا نظر آتا ، صدر کو رہا کرو۔ ایک دن دیکھا گیا کہ صدر صاحب خود ہی یہ سارا کچھ لکھ رہے تھے۔کامران ٹیسوری کا یہ بیان بڑا وائرل ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے ان کی طرف سے حکم دیا گیا تھا کہ مسلمانوں کو شراب فروخت کرنے والی دکان بند کر دی جائے اور مسلمان گاہک کو گرفتار کر لیا جائے۔ ان کے اس حکم پر عمل ہوا یا نہیں ہوا لیکن اس سے پہلے یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا گورنر صاحب ایسا حکم دے بھی سکتے ہیں۔ بہرحال حکم دے سکتے ہیں یا نہیں، خبروں میں ضرور آگئے۔ یہی ان کا کمالِ فن ہو سکتا ہے.
٭....٭....٭
لندن میں فوجی مشقوں کے دوران مشقوں میں حصہ لینے والے پانچ گھوڑے بدک گئے۔
مشقوں کے دوران ٹھاہ ٹھاہ کی آوازیں ہی آنی ہوتی ہیں۔ بین تو وہاں بجائی نہیں جاتی۔ سر تال بھی اٹھائی نہیں جاتی۔یہ کیسے گھوڑے ہوں گے اور فوج کے لیے کس قدر کارآمد ہوں گے کہ مشقوں کی ٹھک ٹھک ٹھاہ ٹھاہ کی آواز سن کر فرار ہو گئے اور فرار بھی ایسے ہوئے کہ سڑکوں پر آگئے۔ کوئی ٹیکسی سے کوئی سنگل ڈیکر اورکوئی ڈبل ڈیکر بس سے ٹکرایا۔ان پانچ گھوڑوں کو دو گھنٹے بعد قابو کیا گیا۔کبھی گھوڑوں پر سوار ہوکر جنگیں لڑ ی جاتی تھیں۔آج بھی گھوڑے خچر اور گدھے افواج کی ضرورت ہیں۔پہاڑوں پر اسلحہ پہنچانے کے لیے خچر اور گدھے استعمال ہوتے ہیں۔برطانیہ کو فاک لینڈ جنگ گھوڑوں پر لڑنی پڑتی تو ایسے گھوڑے کیا کارکردگی دکھاتے۔جائزہ لیا جائے کہ ٹھاہ ٹھاہ کی آواز سے خوفزدہ ہونے والے ان گھوڑوں کی کون سی نسل ہے۔ کہا جاتا ہے ماں پہ پوت باپ پہ گھوڑا زیادہ نہیں تو تھوڑا تھوڑا۔ یہ گھوڑے کس پہ گئے ہیں۔بات جب گھوڑوں کی خچروں کی گدھوں کی ہو رہی ہے تو گدھے کی کئی ممالک میں بڑی مانگ ہے۔انڈیا میں تو گدھوں سے زیادہ گدھیوں کی آج کل ویلیو ہے۔وہاں ایک بے روزگار شخص نے گدھیوں کا فارم کھول لیا۔ وہ ان کا دودھ فروخت کر رہا ہے۔ فی کلو پانچ ہزار چھ ہزار روپے میں۔ یہ دودھ ادویات سے زیادہ کاسمیٹکس میں یعنی حسن کو دوبالا کرنے والی مصنوعات میں استعمال ہوتا ہے۔
٭....٭....٭
ہفتہ‘ 18 شوال المکرم 1445ھ ‘ 27 اپریل 2024
Apr 27, 2024