پاکستان کرکٹ ٹیم نیوزی لینڈ کی ناتجربہ کار ٹیم کے خلاف پانچ ٹونٹی ٹونٹی میچوں کی سیریز کے آخری اور فیصلہ کن میچ کے لیے آج میدان میں اترے گی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ مہمان ٹیم نیوزی لینڈ سیریز ہارنے کے خوف سے نکل چکی ہے۔ پاکستان ٹیم کی ساکھ اپنے میدانوں میں بھی داو پر لگی ہوئی ہے۔ پاکستان سیریز جیت تو نہیں سکتا البتہ پانچ میچوں کی سیریز کو برابر کرنے کے لیے میزبان ٹیم کو آج کا میچ ہر حال جیتنا ہو گا۔ اگر پاکستان آج بھی ہارا تو میزبان ٹیم کی کیوبز کے خلاف یہ ناکامی اس لحاظ سے بہت تکلیف دہ ہو گی کہ نیوزی لینڈ کی یہ ٹیم نہایت ناتجربہ کار کرکٹرز پر مشتمل ہے۔ کیویز کے نمایاں پندرہ کھلاڑی تو انڈین پریمیر لیگ یا پھر دیگر مسائل و مصروفیات کی وجہ سے پاکستان نہیں آئی۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم چند تجربہ کار کرکٹرز کے ساتھ پاکستان آئی ہوئی ہے۔ کیوی کھلاڑیوں کی اکثریت ناتجربہ کار ہے لیکن انہوں نے کمال ذہانت، سمجھداری اور بہترین حکمت عملی کے ساتھ کرکٹ کھیلتے ہوئے ایک میچ راولپنڈی اور ایک میچ لاہور میں جیت کر پاکستان کیمپ کی مشکلات میں اضافہ تو کیا ہے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے پاکستان کے بہترین کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو بھی چیلنج کر دیا ہے، ہمارا بیک اپ کہیں نظر آتا، نیوزی لینڈ والے بیک اپ۔ کے ساتھ ہیں اور ہماری بہترین ٹیم کے خلاف شاندار کرکٹ کھیل کر بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر چکے ہیں۔ راولپنڈی میں مہمان ٹیم نے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی اور قذافی سٹیڈیم میں انہوں نے رنز آن بورڈ کیے اور پھر اس ٹوٹل کا دفاع کیا، پاکستان کے پاس چار سپنرز تھے لیکن بعد میں بیٹنگ کا فیصلہ کیا جو کہ کامیاب ثابت نہ ہو سکا، پاکستان نے شاداب کی قیادت میں ایک مرتبہ شارجہ میں کھیلتے ہوئے چار فاسٹ باؤلرز کھلائے اور ٹاس جیت کر باولنگ کر لی۔ ایک طرف پاکستان ٹیم کے کھلاڑیوں کی فزیکل فٹنس مشکوک ہو چکی ہے ایک کے بعد ایک کھلاڑی ان فٹ ہو رہا ہے تو دوسری فیلڈنگ کا معیار بہت گر چکا ہے، حکمت عملی نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی، روٹیشن پالیسی کے نام پر ایک نیا ڈرامہ شروع کیا ہے، دنیا اپنے کامبی نیشن فائنل کر چکی ہے اور ہم اپنے بیٹنگ آرڈر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ میں مصروف ہیں۔ کہا گیا تھا کہ نیوزی لینڈ کی سی ٹیم پاکستان آ رہی ہے اور میزبان ٹیم بآسانی یہ سیریز جیت جائے گی لیکن نتائج اس کے برعکس ہیں۔ سی ٹیم کے خلاف پاکستان نے ڈی گریڈ کرکٹ کھیل کر شائقین کو بیحد مایوس کیا ہے۔ چوتھے میچ کے اختتام پر سٹیڈیم میں موجود ننھے منے معصوم بچے قومی ٹیم کی شکست کے آنسو بہا رہے تھے لیکن شاید کرکٹرز کو ایسے آنسوؤں سے فرق نہیں پڑتا ہے۔ ورنہ گذشتہ آٹھ ماہ کے دوران پاکستان نے جو کرکٹ کھیلی ہے اس میں کہیں کوئی بہتری نظر آتی ہے۔ کھلاڑیوں کو ہار جیت سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ انہیں پیسے مسلسل مل رہے ہین، بورڈ آفیشلز کو ملک کے مقبول ترین کھیل کی تباہی سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ انہیں بھاری تنخواہیں ہر ماہ مل جاتی ہیں۔ قومی ٹیم کی مسلسل ناکامیوں اور خراب کارکردگی سے فرق صرف شائقین کو پڑتا ہے، بچے آنسو بہاتے ہیں، خواتین دلبرداشتہ ہوتی ہیں مرد حضرات افسردہ ہوتے ہیں اور خود کو ایک نئے میچ کے لیے تیار کرتے ہیں لیکن ہر نئے میچ میں ایک نئی ناکامی ہماری منتظر ہوتی ہے۔ گذشتہ برس ہونے والے ایشیاء کے بعد بھارت میں کھیلا جانے والا ون ڈے ورلڈکپ کرکٹ ٹورنامنٹ، اس کے بعد آسٹریلیا میں ٹیسٹ سیریز، نیوزی لینڈ میں ٹونٹی ٹونٹی میچوں کی سیریز میں ناکامی کے بعد ہوم سیریز میں خسارے کا شکار ہونا یقینا لمحہ فکریہ ہے۔ ایک نئی سلیکشن کمیٹی بغیر سربراہ کے ہے، کوچنگ سٹاف کی سمت کا کچھ اندازہ نہیں ہے۔سب اپنے اپنے تجربات میں مصروف ہیں، قومی کرکٹ ٹیم کے معیار میں تیزی سے ہوتی تنزلی کا کسی پر کوئی اثر نہیں ہے۔ ایک سال کے اندر اندر پاکستان ٹیم آئی سی سی کا دوسرا ایونٹ کھیلے گی کیا ان حالات میں ہم بہتر نتائج کی توقع کر سکتے ہیں۔ نہ سپنرز کا علم ہے نہ فاسٹ باؤلرز کا نہ بیٹنگ آرڈر کا کچھ اتہ پتہ ہے کیا عالمی کپ ایسے جیتے جاتے ہیں۔