اسلام آباد (نمائندہ خصوصی)اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی غیر رسمی نشست " چائے ،باتیں اور کتابیں" کے سلسلے کی بیسویں نشست کا انعقاد کیا گیا۔اس نشست میں ادبا و شعرا اور فنون لطیفہ سے متعلق شخصیات نے شرکت کی۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف صدر نشیں،اکادمی نے تمام معزز مہمانوں کو خوش امدید کہا۔اس نشست کی امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ "بھولی بسری کتابیں" کے موضوع پرمعروف ماہر زبان و ادب سلمان اصف نے حجاب امتیاز علی تاج کے روزنا مچے آپبیتی " لیل و نہار"کے تعارف اور اس کے پس منظر کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی۔اس اہم نشست میں شرکت کرنے والوں میں ڈاکٹر نجیبہ عارف صدر نشین ،اکادمی،سلمان اصف ،عکسی مفتی،فریدہ حفیظ،محمد عاصم بٹ،نصرت یار نصرت،کرنل ( ر) شرافت علی،حمزہ شیخ،شمیم احمد،فراحت اللہ،ناصر علی،شعور علی،حسن فیاض،ساجد علی و دیگر نے شرکت کی۔سلمان اصف نے حجاب امتیاز علی تاج کی کتاب" لیل و نہار" کا پس منظر بیان کرتے ہوئے 1857 ء کی جنگ ازادی کے بعد انگریز حکومت کے زیر اثر ہندوستان میں مسلمانوں کی تہذیبی،تاریخی،سماجی،سیاسی اور معاشی صورت حال پر تفصیلی گفتگو کی اور بتایا کہ اس صورت حال میں کس طرح ہندوستان کی مسلم خواتین نے علمی،ادبی اور سیاسی طور پر خواتین کے شعور کو اجاگر کیا اور ان کو اپنے حقوق کے حصول کیلیے بیدار کیا۔سلمان اصف نیان خواتین اور ان کی انتھک جہدوجہد پرسیر حاصل گفتگو کی۔سلمان اصف نے کہا کہ ان باشعور خواتین میں حجاب امتیاز علی تاج کا نام بہت نمایاں ہے۔انھوں نے کہا کہ حجاب امتیاز علی تاج نے کم عمری میں علمی و ادبی حوالے سے اپنی اہمیت کو ثابت کیا اور اپنے تخلیقی جوہر کا لوہا منوایا۔ حجاب امتیاز علی تاج نے عام روش سے ہٹ کر لکھا اور اپنی انفرادیت کو قائم کیا۔ سلمان ا?صف نے کہا کہ" لیل و نہار"1930-40 تک کے دوران میں مختلف جریدوں میں چھپنے والی تحریروں اور روزنامچے پر مشتمل ایک عمدہ کتاب ہے۔سلمان اصف نے" لیل و نہار" میں سے منتخب اقتباس پڑھ کر سنائے اور سامعین سے داد وصول کی۔اس موقع پر ڈاکٹر نجیبہ عارف صدر نشیں اکادمی نے کہا کہ یہ نشست اس لحاظ سے منفرد ہے کہ "بھولی بسری کتابیں" کے عنوان سے آج سلمان آصف نے حجاب امتیاز علی تاج کی کتاب" لیل و نہار" کے تعارف میں ہندوستان میں مسلمانوں کی تہذیبی سیاسی اور تاریخی جدو جہد پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔انہوں نے کہا کہ حجاب امتیاز علی تاج کا اسلوب سب سے منفرد اور جداگانہ ہے۔انہوں نے لسانی اور فکری سطح پر ادب میں اپنی شناخت بنائی۔اس نشست میں فراحت اللہ نے ماں بولی اور مختلف لہجوں کے بارے میں گفتگو کا اغاز کیا اس موضوع پر گفتگو کرتے والوں میں ڈاکٹر نجیبہ عارف،فریدہ حفیظ،نصرت یار نصرت،اور سلمان ا?صف شامل تھے ان سب کا کہنا تھا کہ کسی بھی زبان کی بقا اور اس کے فروغ میں اس زبان کے بولنے والوں پر دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور و ہ ہی اس زبان کے فروغ کیلیے بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔نشست کے ا?خر میں صدر نشیں،اکادمی ڈاکٹر نجیبہ عارف نیسلمان اصف اور دیگر شرکا کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اپنے قیمتی وقت سیاس نشست کو رونق بخشی۔
اکادمی ادبیات کے زیر اہتمام " چائے ،باتیں اور کتابیں" کے سلسلے کی بیسویں نشست
Apr 27, 2024