’’تخت لاہور پر نوشیروان عادل!‘‘…(آخری قسط)

محکمہ کسٹم والے اپنی جگہ بڑے مطمئن تھے کہ تختِ لاہور پر نوشیروانِ عادل براجمان ہیں۔ انہیں یقین تھا کہ جونہی انکے نوٹس میں آیا۔ وہ فوری طور پر وزیر کو ڈسمس کرینگے۔ مذکورہ سمگلر ٹولے کو دوبارہ گرفتار کرائیں گے اور سمگلنگ کے مال کو برآمد کر کے کسٹم والوں کے حوالے کرینگے۔ سمگلروں کیساتھ وزیر کیخلاف عام فوجداری دفعات کے تحت مقدمہ درج نہیں کرائیں گے بلکہ موصوف کو موت کے کنویں کا رستہ دکھا کر نمونہِ عبرت بنا دیں گے اور محکمہ کسٹم والوں کو ایسے مچھندروں کو پکڑنے پر انعام و اکرام سے نوازیں گے۔ مگر محکمہ کسٹم والوں اور ساری دنیا کو پیغام کیا گیا؟ کہ ہاتھی کی طرح اس حکومت کے کھانے کے دانت اور ہیں دکھانے کے اور! یہ شاہی طبقہ کے لوگ قانون سے بالاتر ہیں۔ یہ برہمن اور عام لوگ شودر ہیں! کسٹم والوں کی سرکوبی اور وزیر صاحب کی فتح یابی پر اُنکے جو ساتھی اور کولیگ انہیں مبارک اور شاباش دینے گئے۔ یہ نوشیروان عادل دوسروں کا احتساب کرینگے؟
٭…٭…٭
مذہبی گھرانے کے ان چشم و چراغ کی طرف سے انکے عوامی نمائندوں کے مثالی اخلاقی معیار کے حوالے سے بھی گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ انکے ایک چہیتے رکن اسمبلی نے ایک خاتون کو ہوٹل میں بلایا۔ اسکے اعتماد اور تنہائی کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔ ساری کوشش کے باوجود متاثرہ خاتون سے مک مکا نہ ہو سکا۔ اور اس نے ’’جبر‘‘ کے تحت حدود کا مقدمہ درج کرا دیا۔ ممبر اسمبلی نے زرکثیر خرچ کر کے خاص قسم کا ’’ڈی ٹرفیٹ پائوڈر‘‘ منگوا کر سیاہ کو سفید یعنی جبر کو رضا سے تبدیل کیا۔ (یوں جیسے اس ’’لبرل‘‘ ملک میں باہمی رضامندی کوئی جرم نہ ہو) مقدمہ پولیس کے زیر تفتیش ہے۔ یا شاید چالان عدالت میں پہنچ گیا ہے۔ رکن اسمبلی ڈٹے ہوئے ہیں۔ اب کم از کم پنجاب کی حد تک ملک کو کوئی دقیانوسی نہیں کہہ سکے گا۔ یہ لبرل ازم کی طرف خاصی پیشرفت ہے۔ تفنن برطرف جن ترقی یافتہ۔ روشن خیال ملکوں میں ’’بالرضا‘‘ کوئی جرم نہیں ہے۔ وہاں بھی عوامی نمائندوں کی ایسی غیر اخلاقی حرکت قطعاً قابل معافی نہیں ہے۔ میرے نزدیک مذکورہ دونوں ’سانحات‘ ایسے نہ تھے‘ جنہیں skip over یا نظرانداز کرنا کسی اچھے حکمران کے شایانِ شان تھا۔
جب یہ کالم اخبار کو فیکس کیا۔ اُن دنوں ملک میں چینی کا بحران گھمبیر ہو رہا تھا۔ ذخیرہ اندوزوں نے چینی سٹاک کرلی مارکیٹ میں شارٹیج پیدا کر دی۔ لامحالہ قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔ یہ ذخیرہ اندوزوں کے پرانے حربے ہیں کہ پہلے لوگوں کو مہنگی قیمتوں کا عادی کرو پھر سرکاری قیمت بڑھائو۔ کھیل سکرپٹ کے مطابق چل رہا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے کام خراب کر دیا۔ انہوں نے یہ چیلنج قبول کر کے چھُپے ہوئے ذخیرے باہر نکالنے شروع کر دئیے۔ کسی کا لحاظ نہیں۔ کسی کو رعایت نہیں!
شہباز شریف پوری فارم میں تھے۔ مجھے کرکٹ کی دنیا کے ’لٹل ماسٹر‘ حنیف محمد کا کھیل یاد آ گیا وہ 2 دن سے کریز پر تھے۔ چوکے چھکے لگا رہے تھے۔ ایک برطانوی اخبار نے لکھا۔ لگتا ہے۔ حنیف محمد کو ہٹانے کیلئے پولیس بلانا پڑے گی۔ ڈرامہ بازوں کو گھبرا کر سکرپٹ شارٹ کرنا پڑا۔ میز پر آ گئے اور وہی کیا جو سوچ رکھا تھا۔ میاں شہباز شریف پھر ڈٹ گئے کہ یہ قیمت منظور نہیں۔ آج اگر چینی کی قیمت 45 روپے کلو تک محدود رہی ہے تو میاں صاحب کے سر کو دعائیں دو۔ میں اس صورت پر بڑا خوش ہو رہا تھا کہ ایک چھوٹی سی خبر نے پھر مورال ڈائون کر دیا۔ میاں صاحب نے لٹیا ہی ڈبو دی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے وفاقی حکومت سے درخواست کی ہے کہ اگر آپ فی چپاتی مجھے ایک روپیہ سب سڈی (خیرات) دے دیں۔ تو میں اپنے غریب عوام کو مفت روٹی دے سکتا ہوں۔ میں یہ سین دیکھ کر گھبرا گیا۔ غیور صوبہ پنجاب کا حاکم اعلیٰ کشکول لئے زرداری اور گیلانی سے کہہ رہا ہے۔ ’’دے جا سخیا راہِ خدا۔ تیرا اللہ ہی بوٹا لائے دا‘‘ اُن کی تحویل میں تو چار صوبے ہیں‘ وہ پوچھ سکتے ہیں کہ اگر باقی تین صوبوں کے غریب عوام مفت یا سستی روٹی کے بغیر زندہ ہیں۔ تو پنجابیوں کو ایسی کون سی موت پڑ رہی ہے کہ آپ بھیک مانگنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ جب سستے آٹے کا آپشن موجود ہے‘ مفت روٹی تو سستی روٹی سے بھی بڑی قباحت اور لعنت ہے۔ مجھے یاد ہے۔ لاہور میں ایک خاندان کی پڑھی لکھی خوبصورت لڑکی کا رشتہ ہو رہا تھا۔ پڑوسیوں نے رشتہ کرنیوالوں سے کہہ دیا کہ ان کا لڑکا تو اکثر داتا دربار سے مفت روٹیاں لاتا ہے آپ کن کمینوں کے ہاں رشتہ کر رہے ہیں اور وہ رشتہ ٹوٹ گیا۔ میاں صاحب پنجاب کا مسئلہ مفت روٹی نہیں پانی ہے۔ پنجاب کے پانی کا انتظام کر دیں۔ پنجاب کا کالاباغ ڈیم بنائیں اور اس صوبے کو دنیا کے خوشحال ترین خطوں میں شامل کریں۔ آپ جیسے حاکم یا خادم سے ہمیں اس سے کم تروارہ نہیں ہے!

ای پیپر دی نیشن