راولپنڈی/ لاہور (اپنے سٹاف رپورٹر سے+نمائندہ خصوصی+ ثنا نیوز) اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمشن نے گذشتہ روز صوبائی دارالحکومت میں آئی جی پنجاب طارق سلیم ڈوگر اور ایڈیشنل آئی جی انویسٹی گیشن عبدالمجید سے تفصیلی ملاقات کی اور بے نظیر بھٹو کے قتل کیس کے حوالے سے معلومات حاصل کی جس کے بعد ٹیم کے تین ارکان واپس اسلام آباد چلے گئے۔ 3گھنٹے سے زیادہ کی ملاقات میں اقوام متحدہ کے کمشن کو بے نظیر بھٹو کے قتل کی وقوعہ کی ویڈیو فلم کے علاوہ خودکش دھماکے پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ کمشن نے صحافیوں سے گفتگو سے گریز کیا‘ 3ارکان اسلام آباد چلے گئے جبکہ 3لاہور میں ٹھہر گئے۔ مزید برآں اقوام متحدہ کی ٹیم نے جنرل طارق سلیم ڈوگر سے سانحہ لیاقت باغ کے تناظر میں تحقیقاتی عمل میں پیدا ہونے والے کئی سوالات دریافت کیے۔ آئی جی پنجاب سے سب سے بڑا اور اہم سوال یہ کیا گیا کہ پولیس کسی بھی جرم کے وقوعہ کو کیسے اور کتنی دیر تک محفوظ کرتی ہے اور اس سلسلے میں پولیس اپنی تفتیش کن مراحل سے گزارتی ہے۔ سابق سی پی او راولپنڈی سعود عزیز نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ خود کش حملہ میں بے نظیر بھٹو شہید کی بلٹ پروف گاڑی کا بیرونی حصہ تو بری طرح متاثر ہوا لیکن ان کی گاڑی اندر سے مکمل طور پر محفوظ رہی۔ اقوام متحدہ کی ٹیم نے سوال اٹھایا کہ جائے شہادت کو وقوعہ کے فوری بعد کیوں دھو دیا گیا تھا تو اس پر سابق سی پی او نے کہا کہ کسی بھی وقوعہ سے اصل کام شہادتیں یکجا کرنا ہوتا ہے۔ جائے وقوعہ سے حملہ آور کا پستول‘ دھماکہ خیز مواد کے نمونے‘ انسانی اعضائ‘ گولیوں کے خول‘ بال بیرنگ‘ چھرے وغیرہ بطور شہادت جمع کیے گئے۔ جائے شہادت سے 26 شہادتیں پولیس نے یکجا کیں جو کسی بھی تفتیش کے لیے کافی مواد ہے تاہم اس کے بعد جائے شہادت کو پانی سے دھلوایا گیا کیونکہ لوگ جذباتی طور پر تیزی سے مشتعل ہو رہے تھے۔ اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم نے وقوعہ کے بعد کی تحقیقات کے حوالے سے سوالات کیے تو ٹیم کو بتایا گیا کہ حکومت پنجاب نے اس سانحہ کی لاہور ہائی کورٹ کے جج سے بھی عدالتی تحقیقات کرائی جبکہ حکومت پنجاب نے ایڈیشنل آئی جی سی آئی ڈی پنجاب کی سربراہی میں تحقیقاتی ٹیم بنائی جس نے اس سانحہ کی انکوائری کی اور بعدازاں وفاقی حکومت نے سکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم سے تحقیقات کرائیں۔