جنوبی پنجاب میں مواصلات کا نظام بحال نہ ہونے پرکئی علاقوں کا تاحال شہروں سے رابطہ منقطع ہے۔ ضلع مظفرگڑھ ، راجن پور، رحیم یارخان ، ڈیرہ غازیخان، لیہ اور بھکر میں سیلاب متاثرین کوبروقت طبی سہولیات نہ ملنے پروبائی امراض جان لیوا ثابت ہورہے ہیں۔ اس وقت انسٹھ ہزار افراد جلدی اور بیالیس ہزارگندا پانی پینے سے پیٹ کے امراض میں مبتلا ہیں جبکہ پچپن ہزار سانس، آنکھوں اور کان کی بیماریوں کا شکارہوکر مختلف سرکاری ہسپتالوں اورمیڈیکل کیمپوں میں زیرعلاج ہیں۔ ڈی جی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی پنجاب خالد شیردل کا کہنا ہے کہ مجموعی طورپرتین لاکھ سے زائد متاثرین سیلاب مختلف بیماریوں کا شکار ہوئے ہیں۔ دوسری طرف سیلابی پانی کم ہونے پر بیشترعلاقوں میں متاثرین نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے مکانات کی تعمیر شروع کردی ہے۔ ادھرحالیہ بارشوں سے ضلع میانوالی اورراجن پور کے درجنوں دیہات میں دوبارہ سیلاب جیسی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ دوسری طرف دریائے چناب اورجہلم سے متاثرہونے والے ضلع جھنگ کے درجنوں دیہات اکیس روز گزر جانے کے بعد بھی ہر طرح کے ریلیف سے محروم ہیں۔ ادھر بھارت کی جانب سے پانی چھوڑے جانے کے باعث دریائے ستلج میں پانی کی سطح سترہ سے اٹھارہ فٹ بلند ہوگئی ہے۔ ضلع قصورکے مختلف علاقے زیرآب آگئے ہیں جبکہ فصلیں سڑکیں پانی میں ڈوب گئیں۔ پاکپتن میں اکتالیس نشیبی دیہات کے مکینوں کو محفوظ مقامات پرمنتقل ہونے کی وارننگ جاری کی گئی ہے۔ وہاڑی میں ہیڈ اسلام کے مقام پرپانی کی سطح میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ بہاولپورمیں ایمن والا پتن جانگڑھ کے مقام پردریائے ستلج میں پانی کی سطح مسلسل بلند ہو رہی ہے۔ بہاولپورکے شمالی دیہات میں سیلاب کی وارننگ جاری کردی گئی ہے۔ دریائے راوی میں متوقع سیلاب کے پیش نظرضلع نارووال اور شکرگڑھ کے نواحی علاقے خالی کرائے جارہے ہیں۔ جسڑ کے مقام پرموسلا دھار بارشوں کی وجہ سے دریائے راوی میں پانی کا بہاؤزیادہ ہوگیا ہے۔ ادھرضلع شکر گڑھ کے موضع بلاقی چک کے مکینوں کو کشتی کے ذریعے محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔