ریاست جموں و کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ وہاں مسلمان ایک بھاری اکثریت میں رہتے ہیں۔ 1947ءمیں پاکستان اور بھارت کے آزاد ہوتے ہی ریاست میں تحریک آزادی شروع ہو گئی تھی۔ قدرتی طور پر کشمیر کے لوگ مسلمان ہونے کی وجہ سے پاکستان کیساتھ شامل ہونا چاہتے تھے۔ گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کے لوگوں نے مسلح جدوجہد سے ڈوگرہ حکمرانوں سے اس خطے کو آزاد ہونے کو ہی تھی کہ بھارت نے اپنی افواج کو بھاری تعداد میں وہاں بھیج دیا تھا۔ اور اس طرح بھارت نے نہتے مسلمانوں کا قتل عام جگہ جگہ کیا تھا۔ مسلمانوں کی آبادیوں کو نذر آتش کیا تھا۔ لاکھوں مسلمان اپنے گھروں کو چھوڑ کر پاکستان میں آ گئے تھے۔ ان لوگوں میں میں خود اور میرا خاندان بھی شامل تھا۔
بھارت نے خود ہی ریاست جموں و کشمیر کے جھگڑے کو ”یو این او“ کی سلامتی کونسل میں اٹھایا تھا۔ پاکستان اور بھارت کے نمائندوں کی طویل بحث و تکرار کے بعد سلامتی کونسل اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ ریاست جموں و کشمیر لہر لحاظ سے ایک متنازعہ علاقہ ہے اور اسکے مستقبل کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ سلامتی کونسل کی 1948ءاور 1949ءکی بااتفاق رائے منظور شدہ قراردادوں کیمطابق ریاست جموں و کشمیر میں ”یو این او“ کی نگرانی میں عام رائے شماری کا اہتمام ہو گا جس میں ریاست کے لوگ خود اپنی آزادی مرضی اور خواہش سے پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کا اعلان کریں گے بھارت کی یہ ایک کشمیر کے جھگڑے کو طول دینے کی گہری سازش اور چال تھی۔ شروع شروع میں بار بار بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو نہ صرف تسلیم کیا تھا بلکہ ان پر ایمانداری سے عمل کرنے کا وعدہ ساری دنیا کے سامنے کیا تھا۔ یہ وعدہ محض دھوکے اور فریب پر مبنی اعلان تھا۔ بھارت ایک توسیع پسند ملک ہے۔ آزادی کے فوراً بعد بھارت نے جونا گڑھ منگرول‘ میناودر اور حیدرآباد وغیرہ پر فوج کشی سے قبضہ جما لیا تھا۔ اسی طرح بھارت نے گوا پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔ یہ بات دونوں ملکوں کے بہترین مفاد میں ہے کہ وہ اپنی اپنی افواج کو ریاست سے واپس بلا لیں۔ آزادکشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی حکومتیں مل کر ہر قسم کے ریاستی امور کو چلائیں گی۔ اسکے بعد عام رائے شماری کے کرانے کا اعلان ہو گا۔ اس آزاد فضا میں لوگ اپنی مرضی اور خواہش سے اپنے مستقبل کا اعلان کرینگے۔ یہی ایک انتہائی موزوں طریقہ ہے جس سے اس جھگڑے کو ہمیشہ کیلئے پرامن فضا میں حل کر لیا جائیگا۔ بھارت عقل و دانش کے ناخن لے۔ دنیا کی تاریخ سے وہ سبق حاصل کرے۔ حق خودارادیت کی بنا پر دنیا میں سینکڑوں ملک اغیار کی غلامی سے آزاد ہوئے ہیں۔ آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے کوئی بھی شہری محض طاقت اور دولت کی بناءپر کسی اور شہری کو غلام نہ بنا سکے گا۔
اس طرح کوئی بھی قوم کسی اور قوم کو غلام بنا کر نہ رکھ سکے گی۔ بھارتی رہنما ”یو این او“ کے چارٹر کو غور سے پڑھیں اور پھر کشمیر پر سلامتی کونسل کی انصاف اور حق پرستی پر مبنی قراردادوں کا بھی غور سے مطالعہ کریں۔ کشمیر کے لوگوں کو ابھی تک بھارت نے ان کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع ہی نہ دیا ہے۔ ریاست کے لوگ چیخ چیخ کر ہر روز اس بات کا اعلان کرتے رہتے ہیں کہ وہ کبھی بھارت کے ساتھ رہنے کو تیار نہ ہیں۔ وہ آزاد ہونا چاہتے ہیں۔ وہ آزاد فضا اور ماحول میں خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اگر بھارت کی غلامی میں رہنا مقصود ہوتا تو میں اور مجھ جیسے لاکھوں لوگ کبھی بھی ہجرت نہ کرتے۔ کشمیری ہر صورت میں آزادی چاہتے ہیں۔ بھارت نے اپنی آٹھ لاکھ سے بھی زائد اپنی افواج کو ریاست کے چپے چپے میں بٹھا رکھا ہے۔ آئے دن وہ بے گناہ کشمیریوں کو گولیوں کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ کشمیر کے ہر گھر، بازار، گلی کوچے اور گاﺅں میں بھارتی افواج دن رات جدید ترین ہتھیاروں سے مسلح ہو کر گشت کرنے میں موجود رہتی ہے۔ ان حالات میں مقبوضہ کشمیر کو بھارت کی آٹھ لاکھ افواج کی چھاﺅنی کا نام دیا گیا ہے۔ بھارت کب تک کشمیر کو محض اندھی فوجی طاقت سے اپنے قبضے میں رکھ سکے گا؟ اگر ایسا ممکن ہوتا تو انگریز جوکہ اپنے وقت میں دنیا کی ایک سُپر پاور تھے وہ کبھی برصغیر کو آزادی نہ دیتے۔ وہ برصغیر کو خالی کرنے پر مجبور کر دئیے گئے تھے۔ کشمیر کے لوگ سر پر کفن باندھ کر بھارت سے آزادی کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔ کچھ دن پہلے کشمیری مجاہدین نے بھارتی افواج کے آٹھ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور دیگر 13 فوجیوں کو شدید زخمی کر دیا تھا۔ یہ واقعہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ کشمیری بھارتی افواج کی کشمیر میں موجودگی کو کسی صورت برداشت کرنے کو تیار نہ ہیں۔ کشمیری بھارتی افواج کو غیر ملکی قابض افواج کا درجہ دیتے ہیں۔ کشمیری ہمیشہ سے بھارتی فوجیوں کو دیکھتے ہی جوش میں آ جاتے ہیں اور انکے خلاف نعروں سے اپنی بے پناہ نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ کشمیر بلاشبہ مسلمانوں کا اکثریتی علاقہ ہے۔ 1947ءمیرے بچپن کا زمانہ تھا اور ہم تمام بچے بھی لوگوں سے مل کر آزادی کے نعرے لگاتے رہتے تھے۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے بھی ہم لگایا کرتے تھے۔ مجھے وہ زمانہ اچھی طرح سے یاد ہے جب مسلمان بستیوں کو بھارتی اور ڈوگرہ افواج نے مل کر نذر آتش کیا تھا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے ”نوشہرہ“ شہر کے نزدیک مسلمان آبادی کو مردوں عورتوں بچوں سمیت جلا دیا گیا تھا۔ آگ کے شعلے میلوں دور تک نظر آ تے تھے۔ یہ کیوں کیا گیا تھا؟ بھارت کو صرف اور صرف کشمیر کی زمین درکار تھی وہاں کی مسلمان قوم پر اتنے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے کے باوجود بھارت کس منہ سے کہتا پھرتا ہے کہ کشمیر اسکا اپنا ہے۔