ضمنی انتخابات کے نتائج میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی برتری سے عمران خان کی جانب سے 11مئی 2013ءکے انتخابات کے حوالہ سے و ائٹ پیپر میں لگائے گئے الزامات دھندلا گئے ہےں اور ان کا مو¿قف بھی کمزور ہوتا نظر آرہا ہے اور دراصل وائٹ پیپر تیار کرتے ہوئے عمران خان کی ٹیم واضح ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی اور انہوں نے 1990ءکے الےکشن کے حوالے سے جو وائٹ پیپر محترمہ بے نظیر بھٹو نے عمر اصغر خان(مرحوم) ، خورشید محمود قصوری، شفقت محمود اور قیصر بنگالی کی سربراہی میں تیار کر وایا تھا اس کے خدوخال کو مدِ نظر نہیں رکھا گیا۔
یوں تو 11مئی 2013ءکے انتخابات کے نتائج نے کامیاب اور ہارنے والوں دونوں فریقوں کو حیرت زدہ کر دیا تھا لےکن چند حلقوں کے نتائج تو حد درجہ حیران کن تھے۔ جہاں کامیاب ہونے والے معزز ارکان نے اےک منٹ میں 300سے زائد ووٹ حاصل کرنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ حالانکہ بین الاقوامی انتخابی طریقہ کار کے مطابق اےک منٹ میں 40سے زائد ووٹ کاسٹ ہو ہی نہیں سکتے جب کہ ووٹر کو دو بیلٹ پیپرز مہیا کئے جاتے ہےں۔ جن میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار شامل ہوتے ہےں اور اےک پولنگ سٹیشن پر چار بوتھ بنائے جاتے ہےں اور پولنگ اور ووٹ کو پولنگ سٹیشن میں موجود 13پولنگ سٹاف کے سامنے مرحلہ وار گزرنا پڑتا ہے اور پولنگ ایجنٹ کے سوالوں کا بھی جواب دینا مقصود ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سیکورٹی کے عملہ سے بھی کلیئرنس کروانی ہوتی ہے۔ ان تمام دشوار کن مرحلوں سے گزرنے کے بعد ووٹر کو بیلٹ پیپرز مہیا کئے جاتے ہےں اور پھر پردے کے پیچھے اس نے اپنی پسند کے امیدوار کے سامنے مہر لگانی ہوتی ہے اور پھر بیلٹ پیپرز کو پریذائڈنگ آفیسر کے سامنے رکھے ہوئے دو بیلٹ بکس میں اپنا ووٹ ڈالنا ہوتا ہے۔ اور الیکٹرول سسٹم کے ماہرین نے اس سارے عمل کی سائنسی بنیادوں پر تحقیق کرنے کے بعد ےہ نتیجہ نکالا ہے کہ اےک گھنٹہ میں کم و بیش 40ووٹوں کو ہی بھگتایا جاسکتا ہے۔لوکل گورنمنٹ الےکشن 2001ءمیں الےکشن کمیشن آف پاکستان اور قومی تعمیر نو کے اس وقت کے چےئرمین جنرل تنویر حسین نقوی، دانیال عزیز، جسٹس امجد، مسٹر انعام الحق اور مسٹر گل فراز پر مشتمل اےک کمیٹی نے جس میں، میں نے بطور ترجمان الےکشن کمیشن آف پاکستان نمائندگی کی تھی۔اس کا عملی تجربہ کیا تھا جس کے مطابق چونکہ لوکل گورنمنٹ کے الےکشن میں ووٹ کو 6بیلٹ پیپرز کا استعمال لانا تھا۔ تو وقت کا دورانےہ مثالی طور پر اےک گھنٹہ میں 20ووٹ ہی بھگتانے کا عملی تجربہ دیکھنے میں آیا تھا۔
اِسی پس منظر میں 11مئی کے انتخابات کے حوالہ سے بعض حالتوں میں مدِ مقابل سیاسی جماعتوں پر دھاندلی اور الےکشن کمیشن پر شفاف انتخابات کرانے میں ناکامی کے الزامات عائد کئے۔ بعض حلقوں میں ہارنے پر احتجاج اوردھرنوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ان کے اس ردِ عمل سے پاکستان کے سیاسی حلقوں کو 7مارچ 1977ءکے انتخابات اور پی۔این۔اے کی تحریک سا منظر دیکھ کر شدید تشویش لاحق ہوئی۔ ملک میں 18فروری 2008ءمیں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت نے آئینی مدت پوری کی۔ یقین تھا کہ اسکے بعد اقتدار کی منتقلی جمہوری انداز میں ہو گی۔ لےکن انتخابات کے صاف و شفاف ہونے کے بارے میں بعض حلقوں کی جانب سے شدید اعتراضات نے عام ووٹر کو مضطرب کر دیا۔ بہرحال عمران خان نے بھی صدر زرداری کی مفاہمتی پالیسی کو اپناتے ہوئے ملک میں لانگ مارچ سے گریز کیا اور دھاندلی کے الزامات کی شفاف تحقیقات کیلئے پر امن اور الےکشن ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانے پر آمادہ ہو گئے۔ اس دوران اہم پیش رفت ےہ ہوئی کہ چیف الےکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم صدارتی الےکشن میں اپنے متنازعہ صدارتی شیڈول کی بناءپر دل برداشتہ ہو کر مستعفی ہو گئے۔ سید خورشید شاہ اور عمران خان کی طرف سے انہیں مسلسل ہدف تنقید اور تضحیک کا نشانہ بنایا جارہا تھا کہ انکی سربراہی میں الےکشن کمیشن شفاف انتخابات میں ناکام رہا۔ زمینی حقائق ےہی بتاتے ہےں کہ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم چیف الےکشن کمشنر بننے کے اہل نہیں تھے۔ کمزور صحت، فیصلے کرنے میں کوتاہی، قوت فیصلہ سے محروم، لیڈرشپ کا فقدان اور کمزور قوت ارادی سے انہوں نے قوم کے اعتماد کو مجروح کیا۔ دراصل انہیں ڈاکٹر طاہر القادری کے مطالبے کی روشنی میں مارچ2013ءمیں ہی مستعفی ہو جانا چاہےے تھا۔ کیونکہ ان کے تقرر کو آئین کے آرٹیکل 213سے متصادم قرار دیا جارہا تھا۔
عوام کے ووٹ دینے کے جمہوری حق کو پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں آج تک آئین کے آرٹیکل 2سے 40تک کسی بھی آئینی شق اور آرٹیکل62-63پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ پاکستان کے طاقتور حلقے بھی جو دھاندلی کی تصویروں اور نظرےہ سازش سے متفق نہ تھے۔ حکومت سے مسلسل مطالبہ کر رہے تھے کہ دھاندلی کا الزام لگانے والوں کے اطمینان کیلئے ضروری اقدامات کئے جائیں۔ جیسے بھی ممکن ہو۔ جس طرح جون1977ءمیں مسٹر ذوالفقار علی بھٹو پر اندرونی اور بیرونی دباﺅ ےہی تھا کہ مخالف سیاسی جماعتوں کو مطمئن کرنے کے لئے دوبارہ انتخابات کرا دئےے جائیں۔ لےکن مسٹر ذوالفقار علی بھٹو تاریخ میں اپنے نام کو دھاندلی زدہ پارلیمنٹ کے منتخب وزیراعظم کہلوانا پسند نہیں کرتے تھے۔ لہٰذا مذاکرات کو اس قدر طویل دیا گیا کہ ملک میں جمہوریت کی ہی بساط الٹ دی گئی۔ اقتدار بھی گیا اور جان بھی گئی۔
اگر 11مئی 2013ءکے انتخابات کی تاریخ دیکھی جائے تو جمہوری طور پر میاں نواز شریف کو 11مئی 2013ءکو رات ساڑھے گیارہ بجے خطاب نہیں کرنا چاہےے تھا اور اس وقت تو کسی حلقے سے بھی الےکشن رزلٹ موصول نہیں ہوئے تھے۔ بعض نجی ٹیلی ویژن جعلی طور پر مفروضہ اور خود ساختہ نتائج پیش کر رہے تھے جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی۔ اگر عمران خان گر کر زخمی نہ ہوتے تو یقینا پھر 8مارچ1977ءکا ہی منظر سامنے آجاتا۔ جب پی۔ این۔اے نے ملک بھر میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔
اس پس منظر میں ملک میں دوبارہ انتخابات کرانے کے نعرے لگتے بھی سنے گئے جو کہ نہ صرف ممکن نہیں بلکہ بہت بڑے انتشار کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ چنانچہ اس مسئلہ کا حقیقت پسندانہ حل ہی ہے کہ جن چار حلقوں میں دھاندلی کے سنگین الزامات ہےں وہاں رائے دہندگان کے انگوٹھوں کے نشانات کی مدد سے شفافیت کا تعین کر لیا جائے اور جن حلقوں کے انتخابی نتائج کے حوالہ سے کیس الےکشن ٹربیونلز میں زیر سماعت ہےں ان کی تحقیقات عوامی نمائندگی اےکٹ 76کی دفعہ 55، 57کے تحت چار ماہ کے اندر اندر مکمل کر لی جائے۔ حکومت اور اپوزیشن نے مثبت نتائج حاصل کرنے کے لئے خصوصی پارلیمانی کمیٹی قائم کرنے کا جو فیصلہ کیا وہ قانونی طور پر درست قدم نہیں تھا کیونکہ پارلیمانی کمیٹی الےکشن کمیشن کے مقررہ کردہ الےکشن ٹربیونلز کے معاملات میں مداخلت کرنے کا استحقاق نہیں رکھتی اور آئین کے آرٹیکل 225کے مطابق الےکشن کے مراحلے گزرنے کے بعد الےکشن کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا اور ماسوائے ان کے جن نتائج کے خلاف الےکشن ٹربیونلز میں کیسز درج کرائے گئے ہےں لہٰذا پارلیمان کی خصوصی کمیٹی الےکشن کمیشن آف پاکستان کو ےہی سفارش کر سکتی ہے کہ الےکشن ٹربیونلز کو ہدایات جاری کی جائے کہ وہ اپنے قانونی حدود کی روشنی میں تمام الےکشن کے کیسوں کا فیصلہ چار ماہ کے اندر اندر کر دیا جائے۔حکومت نے اچھا کیا اس کمیٹی کو پیش رفت سے روک دیا۔