لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس محمود مقبول باجوہ نے سانحہ ماڈل ٹائون کا مقدمہ وزیراعظم، وزیراعلیٰ سمیت 21 افراد کے خلاف درج کرنے کے سیشن عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے چار وفاقی وزراء کی درخواستیں خارج کردیں۔ عدالت نے وفاقی وزیر اطلاعات نشریات پرویز رشید، وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور وزیر مملکت پانی و بجلی عابد شیر علی کی طرف سے سیشن جج کے فیصلے کیخلاف دائر درخواستیں خارج کرتے ہوئے اپنے مختصر فیصلے میں قرار دیا کہ درخواست گزار اپنی درخواستوں کے حق میں کوئی قانونی جواز فراہم نہیں کرسکے۔ سماعت کے دوران درخواست گذار وزراء کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ منہاج القرآن انتظامیہ نے جے آئی ٹی کے روبرو تفتیش کا حصہ بننے اور عدالتی ٹربیونل میں بیان قلمبند کرانے کی بجائے وزیراعظم، وزیراعلیٰ سمیت 21 افراد کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست لیکر براہ راست تھانے سے رجوع کرلیا۔ درخواست قابل سماعت نہ ہونے کی بنا پر مسترد کی جائے۔ مہناج القرآن کے ڈائریکٹر جواد حامد نے مقدمہ درج کرنے کیلئے سیشن عدالت میں درخواست دی حالانکہ انکا جاں بحق افراد کے ساتھ کوئی خونی رشتہ نہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب حنیف کھٹانہ نے عدالت سے استدعا کی کہ درخواست کو سماعت کیلئے لارجر بنچ تشکیل دیا جائے کیونکہ معاملہ اہم نوعیت کا ہے۔ عدالتی حکم پر جے آئی ٹی کے سربراہ عارف مشتاق نے بند کمرے میںتفتیش کی رپورٹ پیش کی۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب حنیف کھٹانہ نے کہا کہ سیشن عدالت کے جج نے فیصلہ سنانے سے قبل جے آئی ٹی اور پولیس کی رپورٹ کا جائزہ لینے کے بغیر یکطرفہ فیصلہ سنایا۔ طاہر القادری نے مبالغہ آمیزی کی اور ماڈل ٹائون واقعہ کا ذمہ دار وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور وفاقی وزراء کو قرار دیدیا جس پر عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کیس کے قانونی پہلوئوں کا جائزہ لیکر فیصلہ سنائیگی، عدالتی آداب کے پیش نظر سیاسی دلائل نہ دئیے جائیں۔ منہاج القرآن کے وکیل منصور آفریدی نے کہا کہ ٹھوس ثبوت، گواہوں اور مرنے والوں کے لواحقین کی موجودگی میں پولیس کی مدعیت میں درج کی جانے والی ایف آئی آر کی کوئی حیثیت نہیں۔ اعلیٰ عدالتیں اپنے متعدد فیصلوں میں قرار دے چکی ہیں کہ اگر ٹھوس شواہد موجود ہوں تو دوسری ایف آئی آر درج ہو سکتی ہے۔ گلو بٹ کی قیادت میں پولیس نے سوئے ہوئے کارکنوں پر حملہ کیا۔ انہوں نے فاضل عدالت سے استدعا کی کہ انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سیشن عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کا حکم دیا جائے اور پرویز رشید و دیگر وزراء کی درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کیا جائے۔ سید جاوید اقبال جعفری نے دلائل میں کہا کہ سیشن عدالت کے فیصلے کے باوجود سانحہ ماڈل ٹائون میں شہداء کا مقدمہ متاثرہ فریق کی جانب سے ابھی تک درج نہیں کیا مگر پرویز رشید سمیت دیگر وزراء نے ذاتی حیثیت میں درخواستیں دائر کردی ہیں، ان کا مقصد مقدمہ میں وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب کو بچانا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاون کا مقدمہ درج کئے بغیر اس فیصلے کو ہائیکورٹ میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ ہائیکورٹ نے سیشن کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کیلئے دائر ایک اور درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کردی۔ عدالت نے رجسٹرار آفس کی طرف سے درخواست گزار کے متاثرہ فریق نہ ہونے کا اعتراض برقرار رکھتے ہوئے درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیدیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق وزرا نے ہائیکورٹ کے سنگل بنچ فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انٹرکورٹ اپیل تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد کی جائیگی۔ہائیکورٹ کے تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کسی ملزم یا مشتبہ شخص کی تفتیش کے دوران گرفتاری ضروری نہیں۔ ایف آئی آر درج ہوتے ہی ملزمان کی گرفتاری کا تاثر غلط ہے، جب تک ٹھوس ثبوت نہ ملیں ملزموں کو گرفتار نہ کیا جائے۔ عدالت درخواستیں مسترد کرنے کی وجوہات تفصیلی فیصلے میں جاری کریگی۔