ریڑھ کی ہڈی بارے پچھلے کالم پر ایک کرم فرما نے یہ مصرعہ چست کیا۔ .... ع
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
موصوف کو ہمارے دوست پلس رشتہ دار ہونے کا شرف حاصل ہے اعلی حضرت بیلچہ کو بیلچہ کہنے میں طاق اور مشہور ہیں۔ توپ بنانے والی دھات سے بنا ان کا بھاری بھر کم ہتھوڑا جہاں پڑ جائے نہ صرف تہس نہس کر دیتا ہے بلکہ ایسے گھمبیر گڑھے تشکیل دیتا ہے جو عمروں تک نہیں بھرتے۔ مذکورہ کالم پڑھ کر صحت کا حال جاننے اور مزاج پرسی کیلئے فون کیا۔ الٹے سیدھے سوالوں کے ذریعہ معلومات حاصل کرنے کے بعد حسب عادت تبصرے کا باب کھول دیا۔ بات مہروں کو جوڑنے والی ٹائی ٹینیم کے کیلوں سے شروع ہوئی۔ کہنے لگے یہ خلاف شرع ہے۔ اب تو جنازہ بھی صرف اسی صورت جائز ہو گا جب تک یہ غیر اسلامی مواد میت سے نکال باہر نہیں کیا جائےگا۔ یہ کہتے ہوئے ان کا مشرع چہرہ جلے ہوئے خون جیسے گہرے سیاہی مائل بھورے نحوستی جلال سے دمک اٹھا۔ ٹی وی ٹاک شو میں مخالف سیاسی فریق پر گہرا وار کرنے کی طرح۔ ظاہر ہے اپنی میت کی کٹ وڈ درپیش ہو تو مخالف کی سفاکی ناقابل برداشت ہو جاتی ہے۔ ہم نے احتجاجاً دوستوں کو اس تیزابی گفتگو سے آگاہ کر دیا۔ اب دو محاذ کھل چکے ہیں۔ طنزومزاح اور پھکڑیات سے لیس موٹی تہوں والی دلچسپ سیاسی بحث کی طرح۔ مذکورہ سکول آف تھاٹ کے موید ایک اور دوست نے کہا بڑے باغی بنے پھرتے تھے آخر کیلے گئے نا! دوسرے نے گرہ لگائی گاڑی ورکشاپ پہنچ گئی۔ ہم نے کہا شکر ہے کیل کمر میں لگے کھوپڑی میں نہیں اور گاڑی ورکشاپ میں گئی کباڑ خانے میں برد ہونے سے بچ گئی۔ ایک اور معتدل نقاد نے کہا انسان کے استخوانی ڈھانچے میں موجود سقم مقام آزمائش ہوتا ہے جسے کسی پہلوان یا اللہ والے سے ایڑی تھپکی کے ذریعہ درست کر لینا چاہئے۔ انکے مطابق جسمانی تکلیف دو طرح کی ہیں ہڈی کی تکلیف اور گوشت کی تکلیف۔ انکے نزدیک ہڈی طہارت اور پاکیزگی کی جائے پناہ ہے اور گوشت گناہ کا گہوارہ۔ گوشت کی تکلیف گناہوں سے چھٹکارے کا سبب بنتی ہے۔ ہڈی کی تکلیف کو خدائی آزمائش گردان کر قبول کر لینا چاہئے۔ ایسی تکالیف مقامات بشری سے روحانی بلندیوں کی جانب سفر کا سبب ہوتی ہیں۔ صوفیانہ اصطلاح میں نفس کو مار مار کر سرکہ بلکہ کشتہ بنانے کے جو نسخے تجویز کئے گئے ہیں ان میں بیماری استخوانی عوارض اور دیگر دکھ درد ہمہ قسم وہ فطری چکیاں ہیں جن میں پس جانے کے بعد مادہ اور روح کے درمیان مکالمہ ممکن ہوتا ہے۔ ان حضرات کے مطابق تنگ دستی، عسرت اور مسائل زندگی کا زیور ہیں انسان کو اس جھومر پر نازاں ہونا چاہئے اور عارضی زندگی کیلئے سہولتوں اور آسائشوں کے اہتمام میں دولت اور وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ ایک قریبی عزیز نے اپنی بے تکلف محبت کا پول کھولتے ہوئے کہا چوری چوری کمر تازہ کر لی کیا ارادے ہیں؟
کیا مطلب؟ ہم نے ذرا سنجیدگی سے پوچھا۔ یہی عشق یا دوسری شادی باچھیں پھلا کر ڈھٹائی سے پوچھنے لگے۔ یار ہوش کے ناخن لو۔ خبث باطن کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ستر سالہ بوڑھی جان پر اتنا بے رحم شک و شبہ۔ حسد طنز شرارت کا انبار۔ مگر حقیقی ہمدردوں کی بھی کمی نہیں۔ اس دوسری قبیل کے دوست مذکورہ بالا رائے پر افسوس کناں ہیں۔ انکے نزدیک زندگی کا ہر لمحہ قیمتی اور انمول ہے۔ انسان کی جسمانی اور روحانی صحت ہی شخصیت کا اصل حسن ہے۔ انسانی خیالات اور احساسات و جذبات میں یکسوئی تبھی ممکن ہے جب انسان خودمختار، آزاد اور صحت مند ہو جو اس سے عاری دکھوں میں گھرا انسان تو بے چارہ گھر کا راستہ بھول جاتا ہے چہ جائے کہ وہ کسی اونچے مقام یا درجے کا جو یا ہو۔ اسراف کی حدود لذتوں کے اہتمام سے معنون ہیں ناکہ وجود کو قائم رکھنے کے بنیادی ضروری عمل سے علاج معالجے کی سہولتوں کو لذتوں کا نام دےکر مطعون نہیں کیا جا سکتا۔
باغی مہروں میں کیل لگے اور وہ جڑ کر باہم شیروشکر ہو گئے مریض صحت یاب ہو کر پرسکون دور کا آغاز کر چکا مگر بحث جاری ہے۔ سوچ اور تخیل کا کارخانہ شیطانی بھی ہے اور رحمانی بھی مگر ہے بہت سریع الحرکت اور زرخیز، شیطانی کارخانہ کچھ زیادہ ہی تیز ہے۔ رشتہ دار احباب پیار محبت کے مدعی کیا کیا جست لگاتے ہیں تصویر کے دونوں رخ بلکہ ملٹی رخ سامنے ہیں۔ شاید مرزا غالب نے ایسی ہی کسی صورتحال کے پیش نظر یہ شعر کہا تھا۔ ....
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا