مئی 2013ئ کے انتخابات کے بعد کم و بیش سب ٹھیک چل رہا تھا۔ ن لیگ کیلئے مبارک بادوں کے راگ کچھ دھیمے پڑے تو اِدھر اْدھر سے بدآوازیں اٹھنا شروع ہو گئیں۔ معاملات باتوں سے شروع ہوئے اور جلسے جلوسوں سے ہوتے ہوئے اگست 2014ئ کے دھرنے تک جاپہنچے۔ باتیں یہاں تک ہونے لگیں کہ ’’ن لیگ اب گئی کہ کب گئی‘‘۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس تیز ماحول نے ن لیگ کے اعصاب پر بہت اثرات مرتب کئے جس کے باعث اندر ہی اندر ن لیگ والے بھی اپنے جانے اور دوسروں کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔ اس دوران ن لیگ کی ہیجانی کیفیت کے نفسیاتی مطالعے سے تجزیہ کیا جاسکتا تھا کہ ن لیگ والے بھی یقین کرنے لگے تھے کہ ’’ہم گئے اور وہ آئے‘‘۔ بیشک اس پورے معاملے میں پارلیمنٹ کی زیادہ تر جماعتوں نے ن لیگ کا ساتھ دیا۔ ان جماعتوں نے ن لیگ کا ساتھ دینے کے ساتھ ساتھ ن لیگ کو ہلکی ہلکی ضربیں بھی لگائیں جو ن لیگ کیلئے سردرد کا باعث بھی بن رہی تھیں۔ سیاست میں اپنا وجود برقرار رکھنے کیلئے دوسری جماعتوں کا احسان لینا اپنے آپکو دوسروں کے ہاتھوں بلیک میل ہونے کا موقع دینا ہوتا ہے۔ ن لیگ کو یہی پریشانی کھائے جارہی تھی کہ وہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے جھٹکوں سے تو بچ رہے ہیں مگر پیپلز پارٹی سمیت دیگر پارلیمانی جماعتوں کے پہاڑ جیسے احسان تلے دبنا شروع ہو گئے ہیں جو مستقبل میں ن لیگ کی سیاست کیلئے ایک ’’خاموش زہر‘‘بھی ہو سکتا ہے۔ حالات نے آہستہ آہستہ اپنے بادبان کا رخ ن لیگ کی طرف موڑنا شروع کیا۔ افسانوں کے مطابق نئی دم خم والی تحریکِ انصاف کے مبینہ ماسٹر مائنڈ ریٹائر ہوگئے۔ یکے بعد دیگرے کئی اور بااختیار افسران اپنی ملازمت پوری کرکے جانے لگے۔ یہ سب دھرنوں کی طاقت تھے جو اَب نہ رہے۔ اس کا حتمی فائدہ ن لیگ کو ہوا۔
طاہر القادری کے دھرنوں سے اپنی صف لپیٹ لینے کے باوجود ن لیگ کیلئے سیاسی تکلیف مکمل ختم نہ ہوئی کیونکہ عمران خان ابھی کنٹینر پر موجود تھے۔ انسانی تاریخ کا بدترین خون آلود واقعہ سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کی صورت میں پیش آیا۔ اب تحریک انصاف کیلئے ڈی چوک پر بچھائی ہوئی اپنی دریاں اٹھانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ عمران خان کے دھرنے کے خاتمے کے اعلان نے ن لیگ کو ایک بڑی پریشانی سے نجات دلا دی۔ تحریک انصاف جس کی سیاست میں زیادہ تر دھرنوں کا ہاتھ تھا وہ ختم ہو چکے تھے۔ دھرنوں کے ختم ہونے سے اْنکی سیاست کا گراف بھی نیچے آنے لگا۔ یہ بات عمران خان کیلئے ٹھیک نہ تھی۔ انہوں نے معاملات کو دوبارہ ترتیب دیا اور جوڈیشل کمیشن پر اکڑنے لگے لیکن جوڈیشل کمیشن کے حتمی فیصلے نے پی ٹی آئی کی کمر ٹیڑھی کردی۔ وہ اب سیدھے کھڑے ہوکر چلنے کے قابل نہ رہے۔ اب اْنکی تمام تر نظریں قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر 122 کی سماعت کرنیوالے الیکشن ٹریبونل پر لگ گئیں۔ فیصلہ آنے سے پہلے جب عمران خان اور جہانگیر ترین کی فوری لاہور روانگی کی اطلاعات ملنے لگیں تو معاملات سمجھنے والوں کو سگنلز ڈی کوڈ کرنا آسان ہوگئے۔ الیکشن ٹریبونل کے فیصلے نے تحریک انصاف پر ایسے اثر کیا جیسے آخری دم لیتے ہوئے مریض کو ’’کارٹی زان‘‘ کا ٹیکہ لگا دیا جائے تو وہ زندگی میں لوٹ آتا ہے یا الف لیلہ کی داستانوں میں جب مرتے ہوئے عاشق کو معشوق کا دیدار ہو جائے تو وہ اٹھ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔
سابقہ ڈیڑھ سال سے تحریک انصاف نے سیاسی منظرنامے میں بہت اودھم مچایا ہے مگر سیاسی منظرنامے کو خوبصورت بنانے کیلئے رنگ بھرنے کی نہ کوئی کوشش کی اور نہ ہی کسی اصلاحی عمل میں شامل ہوئے۔ اب ان کی سیاست کا محور صرف اور صرف ن لیگ کی تذلیل ہے۔ تحریک انصاف سے ایسی جاندار آواز بن جانے کی توقع تھی جو پاکستان کے مردار سیاسی نظام میں جان ڈال دیتی۔ عمران خان کی شخصیت سے وابستہ یہ نظریہ کہ وہ ایک ’’کرشماتی شخصیت‘‘ ہیں اب دھندلاتا جارہا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ’’باکمال شخصیت اور لاجواب سروس‘‘ کی جو فلاسفی عمران خان کے اردگرد کھڑی کی گئی تھی وہ شاید محض پراپیگنڈہ تھی یا ایک سراب یعنی دور سے ریت کے سمندر کو دیکھ کر پانی کا سمندر کہہ دینا۔ ان کا مقصد صرف ن لیگ کو سربازار رسوا کرنا تھا لیکن اس سے نوجوانوں میں بازاری سیاست عام ہوگئی۔ تحریک انصاف نے ن لیگ کو کم اور پاکستانی سیاست کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
جیسے کسی کا گنے چوسنے کا دل کرے اور وہ ایک یا دو گنے لینے کیلئے کھیت میں داخل ہو مگر پورا کھیت اجاڑ کر رکھ دے۔
تحریک انصاف کے ’’سرابی مزاج‘‘ نے جو اثرات پاکستانی سیاست پر مرتب کئے ہیں وہ جتنا چاہیں اسے اصلاحی کام سمجھیں لیکن اس کا خمیازہ پاکستانی سیاست کو دیر تک بھگتنا پڑے گا۔ اس دھچکے کا تخمینہ آئندہ کے مورخ لگائیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے تقریباً 46 برس بعد کچھ نوجوان عمران خان کے اردگرد اکٹھے ہوئے مگر وہ اس ’’ینگ ڈرائیو‘‘ کو ’’رائٹ ڈرائیو‘‘ نہ دے سکے۔ اب شاید ایک لمبے عرصے تک پھر انتظار کرنا پڑے کیونکہ نوجوان گلی محلوں سے روز روز نہیں نکلا کرتے۔ اگر عمران خان اپنا باقی وقت جہانگیر ترین کے ساتھ عدالتی مقدموں کے پیچھے بھاگنے کی بجائے آئندہ کی سیاست کو اصلاحی بنانے پر صرف کریں تو ان کے اپنے چانس روشن ہو سکتے ہیں۔
مثلاً انکی اپنی خواہش ہے کہ انتخابات دوبارہ ہونے چاہئیں لیکن اگر یہ انتخابات پہلے والے ڈھانچے اور نظام کے تحت ہوئے تو انہیں پھر منہ کی کھانی پڑ سکتی ہے جیسے سب کے سب حالیہ چھ ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کو شرمناک شرمندگی ہوئی لیکن اگر وہ انتخابی اصلاحات پر اپنا پورا وزن ڈالیں تو امکان ہے کہ مستقبل کے انتخابات پاکستان کی بہتر سیاسی تقدیر بن کر آئیں۔
انتخابی جھاگ میں سے عمران خان جس قسم کی کرپشن پکڑ رہے ہیں وہ 1973ئ سے جاری ہے اور 1973ئ سے پہلے کی انتخابی دھاندلیوں کی بات کرنا دھاندلی کو شرمندہ کرنے والی بات ہے۔ لہٰذا پاکستان میں انتخابی کرپشن سامنے لانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ البتہ انتخابی نظام کو کرپشن سے پاک کرنے کی اصلاحات لانا نئی بات ہوگی۔