اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ ایجنسیاں) پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان الیکشن کمشن کے 4 ارکان کے استعفوں کے معاملے میں اتفاق رائے پیدا ہو گیا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ سے ملاقات اور ان سے الیکشن کمشن کے چار ارکان کے استعفوں کے مطالبہ کے بارے میں بات چیت کی۔ ذرائع کے مطابق تحریک انصاف نے پی پی پی کی حمایت پر اس کا شکریہ ادا کیا۔ ملاقات کے بعد اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ خورشید شاہ سے ایشو پر بات چیت ہوئی ہے اس معاملے پر اپنی پارٹی کی قیادت سے بات چیت کریں گے۔ سید خورشید شاہ نے کہا کہ الیکشن کمشن کے ارکان کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ الیکشن کمشن کے چاروں ارکان ملک اور ادارے کی ساکھ کو مدنظر رکھتے ہوئے مستعفی ہو جائیں، چاروں ارکان کی ضد اور انا کی وجہ سے کشیدگی بڑھنے کا خدشہ ہے، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کا موقف یکساں ہے دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں سے رابطے کریں گے اور مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں گے، آئینی اور قانونی راستہ نہ بچا تو سڑکوں پر آئیں گے۔ الیکشن کمشن کی جانب سے ملنے والا خط خورشید شاہ کے حوالے کر دیا ہے، خورشید شاہ نے پارٹی قیادت سے مشاورت کیلئے وقت ما نگا ہے۔ شفاف الیکشن کرانا صوبائی ارکان کی آئینی ذمہ داری ہے تاہم وہ یہ ذمہ داری احسن طریقے سے نہیں نبھا سکے۔ ہمارا مطالبہ جائز، آئینی اور قانونی ہے، الیکشن کمشن کے ارکان ضد اور ہٹ دھرمی دکھا رہے ہیں جس سے کشیدگی بڑھنے کا خدشہ ہے۔ ان کو عوام کے آگے سرنڈر کرنا ہوگا، پیپلز پارٹی سمیت تما م سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ساتھ رابطے کررہے ہیں، مشترکہ لائحہ عمل طے کرکے الیکشن کمشن کے ارکان کو مستعفی ہونے کیلئے وقت دیا جائے گا۔ ہماری الیکشن کمشن کے چاروں ارکان سے کوئی ذاتی رنجش نہیں، خدارا ملک اور ادارے کی ساکھ کو مدنظر رکھتے ہوئے چاروں ارکان مستعفی ہو جائیں ’’میں نہ مانوں‘‘ والی ضد چھوڑ دیں۔ مسلم لیگ (ن) میں سیاسی بصیرت نہیں سیاسی بصیرت ہوتی تو 126 دن کا دھرنا نہ ہوتا اور نہ ہی ملک کی معیشت کو اربوں کا نقصان نہ ہوتا۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات مثبت رہی ان کے خدشات یکساں ہیں، پارٹی قیادت کو اعتماد میں لیکر دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطہ کیا جائے گا۔ الیکشن کمشن کے چاروں ارکان متنازعہ ہیں جس کی وجہ سے الیکشن کمشن بھی متنازعہ بنتا جارہا ہے، سیکرٹری الیکشن کمشن اور چیف الیکشن کمشنر کی نئی تقرریاں ہوئی ہیںان کا عام انتخابات سے کوئی تعلق نہیں ان کو مستعفی نہیں ہونا چاہیے اصل مسئلہ چاروں صوبائی ارکان کا ہے، متنازعہ ممبران کے حوالے سے دیگر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیں گے۔ خورشید شاہ نے ایم کیو ایم کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے مطالبہ کیا کراچی آپریشن پر بھی نگران کمیٹی ضرور بننی چاہیے۔ شاہ محمود قریشی نے این اے 154 پر الیکشن ٹربیونل کے فیصلے پر قوم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ جس حلقے کو کھولا جائے اس کا رزلٹ ان تینوں حلقوں کی طرح ہوگا لیکن اب اگر مسلم لیگ (ن) نے دوبارہ عوام سے رجوع کا فیصلہ کرلیا ہے تو اب الیکشن کمشن کے کردار کو بھی دیکھنا ہوگا۔ خورشید شاہ نے کہا کہ اس معاملہ کا قانونی حل نکالا جا سکتا ہے، ملک اس وقت احتجاجی سیاست کا متحمل نہیں۔ الیکشن کمشن کے ارکان نے اجلاس کے منٹس پی ٹی آئی کو بھیج دیئے حالانکہ انہیں عمران خان کے خط کا پیراوائز جواب دینا چاہیے تھا۔ ایاز صادق قابل احترام ہیں، وہ استعفوں یا پارلیمنٹ کی قرار داد سے پی ٹی آئی والوں سے جان چھڑا سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ یہ وقت دھرنوں کا نہیں ہمیں مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالنا ہوگا۔ پی پی پی ملک بچانے کی بات کرتی ہے آج ہمسایہ ملکوں کی طرف سے پاکستان پر فائرنگ اور گولہ باری ہورہی ہے، کنٹرول لائن پر خلاف ورزیاں جاری ہیں اس پر حکومت کو اقوام متحدہ سے رجوع کرنا چاہیے۔ رانا ثناء اللہ اور جسٹس ریٹائرڈ کاظم ملک کی جملے بازی درست نہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق انہوں نے کہا کہ بھارت دھمکیاں دے رہا ہے اور عمران خان کو دھرنوں کی پڑی ہے۔ عمران خان جارحانہ پالیسی کی بجائے ملکی مسائل پر توجہ دیتے ہوئے انہیں اجاگر کریں۔ حکومت ایاز صادق کے معاملے پر عوام کی عدالت میں جائے۔ مسلم لیگ ن فیصلہ خلاف آنے پر کاظم ملک پر الزامات نہ لگائے۔ رانا ثناء اللہ کے پاس ثبوت ہیں تو سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کریں۔
’’الیکشن کمشن کے چاروں ارکان استعفے دیں‘‘ پیپلزپارٹی ، تحریک انصاف میں اتفاق
Aug 27, 2015