اسلام آباد (آن لائن) سپریم کورٹ نے مزدور کو کم از کم اجرت دلانے کے معاملے پر کہا ہے کہ اس کے پاس بندوق نہیں کہ وہ اپنے احکامات پر عملدرآمد کرا سکے۔ صوبائی حکومتوں کا کام ہے کہ وہ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹس کے ذریعے کم از کم اجرت پر عملدرآمد کرائیں۔ وفاق اور صوبے لاء اینڈ جسٹس کمشن میں مشترکہ اجلاس منعقد کریں اور مزدوروں کے حوالے سے اب تک کے کیے گئے اقدامات اور مزدوروں کے اعداد و شمار اکٹھے کریں اور ایک ہفتے میں عدالت پیش کریں۔یہ حکم چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بدھ کے روز جاری کیا۔ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ 408 تحصیلوں میں خود جا کر لیبر افسران کی سرزنش کرتے ہوئے مقرر کردہ کم از کم اجرت پر عملدرآمد نہیں کرا سکتی۔ عملدرآمد کرانا حکومتوں کا کام ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر صوبے صوبائی خود مختاری پسند نہیں کرتے تو وفاق کو بتلا دیں ۔ صوبے مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کریں اور خواہ مخواہ میں وفاق پر سب کچھ نہ ڈالیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومتوں نے کاغذ پر کم از کم اجرت مقرر کر دی۔ مزدوروں کے لئے مقرر کم اجرت میں عام آدمی کا گزارہ مشکل ہے ۔ بلوچستان کی طرف سے بتایا گیا کہ لیبر ڈیپارٹمنٹ نے 300 لوگوں کے اس لئے چالان کئے کہ وہ مقرر کردہ اجرت نہیں دے رہے تھے اگر مزدور کی اجرت بنک کے ذریعے ادا کی جائے تو اعداد و شمار حاصل کئے جا سکتے ہیں مزدور کے انگوٹھے لگوانا کوئی مشکل کام نہیں ۔ کے پی کے نے کہا کہ کم از کم اجرت 15 ہزار روپے مقرر کی گئی لیکن ہائی کورٹ نے حکم امتناعی جاری کر دیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب تک اعداد و شمار نہیں ہوں گے اس وقت تک معاملات بہتر نہیں کئے جا سکتے ۔وہاڑی کے ایک مزدور نے بتایا کہ عدالت کی وجہ سے ہمیں پریشان کیا جا رہا ہے ۔ 3500 روپے دیتے تھے اب وہ بھی نہیں دیئے جا رہے مجھے تھپڑ مارے گئے ، پولیس ہماری نہیں سنتی کس کے پاس جائیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے حقوق بھی ہیں آپ خود تنظیم بنائیں اور منظم ہو جائیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ مارچ 2016 میں مردم شماری ہو جائے اور اعداد و شمار آ جائیں تو کم از کم اجرت پر عمل کرایا جا سکتا ہے ۔اس کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صوبوں نے ابھی تک معلومات کیوں نہیں دی۔ مجھے اتنے خطوط آئے ہیں کہ بتا نہیں سکتے۔ نظام لاگو کرنا ہو گا صرف تین ججز کچھ نہیں کر سکتے۔ کے پی کے نے بھی وقت مانگا ہے ۔ رزاق اے مرزا نے بتایا کہ ہم ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مردم شماری تو بڑی بات ہے مگر ڈیٹا تو اکٹھا ہونا چاہئے۔ ہمیں اس کیس کی سماعت کرتے ہوئے 8 ماہ گزر گئے اور ڈیٹا اکٹھا نہیں کیا گیا۔ سیاسی ووٹنگ کا اعداد و شمار تو سب دے دیتے ہیں مزدوروں کا کیوں نہیں دیتے۔ 2000 افراد کا سروے کر کے بھی آپ مزید اقدامات تجویز کر سکتے ہیں۔ سندھ کو تو اس کا پتہ تک نہیں۔ سندھ سے قاضی شہریار نے بتایا کہ حکومت کو اس حوالے سے خط لکھا تھا ۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ یہ وفاق کا نہیں صوبوں کا کام ہے۔ اگر آپ سب صوبائی خود مختاری پسند نہیں کرتے تو وفاق کو بتلا دیں جب تک یہ خود مختاری نہیں ملی تھی آپ باتیں کرتے تھے اب آپ عمل کرنے کو تیار نہیں اور سارا کچھ وفاق پر ڈال رہے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں کچھ عملی طور پر بتائیں۔ ساجد بھٹی نے کہا کہ ہمارا ڈیٹا تیار ہے ۔ 31 اگست کے بعد پیش کر دیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس کو اگلے ہفتے رکھتے ہیں۔ عدالت نے آرڈر لکھوایا اور کہا کہ 6 اگست 2015 کو آرڈر جاری کیا تھا اس پر عمل نہیں ہوا۔ کم از کم اجرت نہیں دی جا رہی ہے۔ کم از کم مقررہ کردہ اجرت دی جائے۔ قانون ہم نے نہیں بنانا۔ یہ کام حکو متوں کا ہے چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے 4 ستمبر 2015 کو لاء اینڈ جسٹس کمشن اور قومی جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے اجلاس طلب کئے۔ ان اجلاسوں میں تمام چیف جسٹس صاحبان اور دیگر متعلقہ حکام شرکت کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے قانون بنا دیا ہے اب سرکار کی ذمہ داری ختم۔ کیونکہ سزا مقرر کر دی گئی ہے یہ نہیں دیکھنا کہ اس پر کتنا عمل ہو رہا ہے ۔عدالت نے آرڈر میں مزید کہا کہ قانون موجود ہے۔ وفاق اور صوبے اس پر عملدرآمد یقینی بنائے۔ اعداد و شمار دیئے جائیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے پاس بندوق کا آپشن نہیں ہے کہ اس سے ہم دوسروں کو ہینڈ اپ کرا سکیں۔ صوبوں نے اپنا اپنا کچھ کام کیا ہوا ہے ۔ عدالت سے استدعا کی گئی کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بھی سٹیٹ بینک کے ذریعے کارڈ بنایا جائے اس سے معاملات واضح ہو جائیں گے تاہم عدالت نے سماعت ملتوی کر دی۔