تحریک انصاف کو تیسرے حلقے میں بھی کامیابی‘ الیکشن کمیشن پر چڑھائی اور حکومتی ارکان کیجانب سے ٹربیونل کے سربراہ کی کردار کشی
سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق‘ وفاقی وزیر اطلاعات و قانون پرویز رشید اور وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ کی جانب سے لاہور کے حلقہ این اے 122 کا فیصلہ صادر کرنیوالے انتخابی ٹربیونل کے جج جسٹس (ر) کاظم علی ملک پر ذاتی نوعیت کے الزامات کا سلسلہ جاری تھا کہ اب ملتان کے انتخابی ٹربیونل نے حلقہ این اے 154 کا انتخاب بھی کالعدم قرار دے دیا ہے جس میں پی ٹی آئی کے امیدوار جہانگیر ترین کے مدمقابل صدیق بلوچ منتخب ہوئے تھے اور اپنے انتخاب کے بعد انہوں نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ اب پہلے سے گرم سیاسی محاذآرائی کی شدت میں مزید اضافہ ہو گااور ممکن ہے انتخابی ٹربیونل ملتان کے سربراہ فاضل جج بھی حکمران مسلم لیگ (ن) کی تنقید کی زد میں آجائیں جس کے صوبائی وزیر رانا ثناءاللہ انتخابی ٹربیونل لاہور کے جج جسٹس (ر) کاظم علی ملک پر الزام عائد کر چکے ہیںکہ وہ خوشاب سے اپنے بیٹے کو انتخاب لڑانا چاہتے تھے اور مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ کے خواہش مند تھے جس سے انکار پر انہوں نے ہمارے خلاف فیصلہ دیا ہے۔ جسٹس (ر) کاظم علی ملک نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دیا اور کہا کہ یہ الزام ثابت ہو جائے تو وہ استعفیٰ دے دینگے۔ انکے بقول ان کا یا انکے بیٹے کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں۔ ان کا بیٹا بنک میں ملازم ہے اگر انکی طرف سے ٹکٹ کی درخواست دی گئی ہے تو وہ سامنے لائی جائے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ قبل ازیں جو فیصلے انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے حق میں صادر کئے کیا وہ رانا ثناءاللہ کے خوف اور دہشت کا نتیجہ تھے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ پرویز رشید نے انہیں جان سے مارنے کی دھمکی دی ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان حلقہ این اے 122 کے فیصلہ کی بنیاد پر الیکشن کمیشن پر چڑھ دوڑے ہیں اور الیکشن کمیشن کے چاروں ارکان سے مستعفی ہونے کا تقاضا کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اگر دھاندلی کرنیوالوں کیخلاف کارروائی نہ کی گئی تو ہم سڑکوں پر نکل آئینگے۔ اب الیکشن ٹربیونل ملتان کے فیصلہ سے انہیں الیکشن کمیشن پر چڑھائی کا مزید موقع ملے گا۔ اسی طرح قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف سید خورشیدشاہ نے بھی الیکشن کمیشن کے ارکان سے مستعفی ہونے کا تقاضا کیا ہے اور کہا ہے کہ متعلقہ کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے چونکہ الیکشن کمیشن کے ارکان کے تقرر میں ان کا بھی کردار تھا اس لئے وہ اس غلطی پر قوم سے معافی مانگتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں تحمل‘ برداشت اور اپنے خلاف عدالتی فیصلوں کو تسلیم کرنے کا کلچر کبھی استوار ہی نہیں ہو پایا اس لئے چاہے کوئی فیصلہ آئین و قانون کے تقاضے پورے کرتے ہوئے میرٹ کی بنیاد پر ہی کیوں نہ صادر کیا گیا ہو‘ اس سے متاثر ہونیوالا فریق اسے صدق دل سے قبول نہیں کرتا اور متعلقہ فاضل جج کو بھی رگیدنا شروع کر دیتا ہے۔ حالانکہ متاثرہ فریق کو اپنے خلاف صادر ہونیوالے فیصلے پر اپیلٹ کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا قانونی حق حاصل ہوتا ہے۔ متاثرہ فریق کی جانب سے یہ حق بھی استعمال کیا جاتا ہے اور متعلقہ فاضل ججوں کی کردار کشی میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی جبکہ یہی فاضل جج اس فریق کے حق میں فیصلہ صادر کردیں تو اسکے انصاف کے ڈنکے بجائے جاتے ہیں۔ ہمارے سیاسی کلچر میں تو تقریباً تمام سیاسی جماعتیں اور انکے قائدین و عہدیداران انصاف کی عملداری کے معاملہ میں یہی روش اختیار کر چکے ہیں۔ اپوزیشن کی جماعتیں تو اپنے خلاف انصاف اور قانون کی کسی کارروائی پر واویلا کرنے اور اسے انتقامی کارروائیوں کے کھاتے میں ڈالنے میں کسی حد تک حق بجانب ہوتی ہیں کیونکہ انکی سیاست ایسے طرز عمل سے ہی فروغ پاتی ہے مگر جب کسی حکمران جماعت کی جانب سے بھی اپنے خلاف صادر ہونیوالے کسی فیصلے پر انصاف کی عملداری کی بھد اڑانی شروع کردی جائے اور متعلقہ فاضل جج کے ساتھ بھی سیاسی مخالفین جیسا سلوک کیا جائے تو یہ صورتحال معاشرے کو انصاف کی عملداری سے دور لے جانے کا باعث بنتی ہے۔ جب حکومت کے پاس عالی دماغ قانونی اور آئینی مشیروں کی ٹیم موجود ہے تو اسے اپنے خلاف صادر ہونیوالے کسی فیصلہ کو آﺅٹ آف کورٹ تنقید کا نشانہ بنانے اور متعلقہ فاضل جج کی کردار کشی کرنے کے بجائے اپیلٹ کورٹ میں فیصلہ کی مبینہ خامیوں کی قانونی دلیلوں کے ساتھ ٹھوس بنیادوں پر نشاندہی کرنی چاہیے تاکہ اسکے دور حکمرانی میں آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کا تشخص پختہ ہو مگر حکومت اس معاملے میں صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑتی نظر آتی ہے۔ اب حلقہ این اے 154 ملتان میں بھی انتخابی ٹربیونل کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے صدیق بلوچ کا انتخاب کالعدم قرار پانے اور اس حلقہ کے ازسرنو انتخاب کے حکم سے ممکن ہے حکومتی پارٹی کی صفوں میں مزید کھلبلی پیدا ہو اور اسکے وزراءاور عہدیداران اس فیصلے کے حوالے سے بھی متعلقہ فاضل جج کی کردار کشی کا راستہ اختیار کرلیں‘ اگر حکمران جماعت کی جانب سے یہ راستہ اختیار کیا گیا تو اس سے یقیناً سیاسی محاذآرائی اور خلفشار میں اضافہ ہوگا اور اس سے اداروں کیخلاف حکومتی پارٹی کی لڑائی کا تاثر پیدا ہو گا تو لامحالہ اس سے جمہوری نظام بھی خطرے میں پڑیگا۔
عمران خان کو چار حلقے کھولنے کے مطالبہ پر چونکہ تین حلقوں میں اپنے موقف میں کامیابی حاصل ہو چکی ہے اس لئے وہ بادی النظر میں 2013ءکے انتخابات کرانے والے الیکشن کمیشن کے شفاف انتخابی عمل کے حوالے سے کردار پر انگلی اٹھانے میں حق بجانب ہیں جبکہ انکی نگاہ میں انتخابی ٹربیونلوں کے ذریعے انصاف کا بول بالا ہوا ہے جو اس کلچر ہی کی عکاسی کرتا ہے جس میں صرف اپنے حق میں آنیوالا فیصلہ ہی انصاف کے تقاضوں کے مطابق نظر آتا ہے۔ اسی سوچ کے تابع عمران خان جوڈیشل (انکوائری) کمیشن کے فیصلہ پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہتے ہیں کیونکہ جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں الیکشن کمیشن کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے 2013ءکے انتخابات کو دھاندلیوں سے مبرا قرار دیا تھا۔ عمران خان اگر الیکشن کمیشن کے ارکان سے مستعفی ہونے کا تقاضا کررہے ہیں تو انکے اس موقف کو بھی جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ نے ہی تقویت پہنچائی ہے اور اب تین انتخابی ٹربیونلوں کے فیصلوں سے الیکشن کمیشن کیخلاف انکے موقف کو مزید تقویت حاصل ہو گئی ہے جبکہ اب قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ بھی انکے موقف کی تائید کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے چاروں ارکان سے مستعفی ہونے کا تقاضا کررہے ہیں جن کے بقول قومی اسمبلی کی متعلقہ کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے الیکشن کمیشن کی تشکیل میں ان کا بھی کردار تھا جس پر وہ قوم سے معذرت خواہ ہیں۔
عمران خان کی گزشتہ سال کی حکومت مخالف تحریک کی تو بنیاد ہی انتخابی دھاندلیوں کے الزامات پر رکھی گئی تھی اور انہوں نے شروع میں چار حلقے ہی کھولنے کا تقاضا کیا تھا۔ اگر حکومت انکے اس تقاضے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی اور عمران خان کا یہ مطالبہ مان لیتی تو اسے زیادہ سے زیادہ ان چار حلقوں کی حد تک نقصان اٹھانا پڑتا جو اب بھی اٹھانا پڑ رہا ہے جبکہ اس وقت عمران خان کی آج انتہاءکو پہنچائی جانیوالی سیاسی محاذآرائی کی نوبت نہ آتی مگر حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے عمران خان کو اس ایشو پر سیاست کرنے کا موقع فراہم کرکے اپنے پاﺅں پر خود ہی کلہاڑی ماری جبکہ اب انتخابی ٹربیونلوں کی جانب سے اپنے خلاف فیصلے آنے پر حکمران جماعت کے عہدیداران اور وفاقی و صوبائی وزراءانصاف کی عملداری کے ہی درپے نظر آرہے ہیں۔
اس وقت جبکہ ایک قومی ادارہ الیکشن کمیشن تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے دھاندلیوں کے الزامات کی زد میں آکر اپنے دفاع کا عندیہ دے رہا ہے اور الیکشن کمیشن کی جانب سے عمران خان کو انکے الزامات اور تقاضوں پر جوابی مراسلہ بھی بھجوا دیا گیا ہے جس کے ارکان نے مستعفی ہونے سے انکار کردیا ہے جبکہ ایک دوسرا قومی ادارہ نادرا بھی الیکشن کمیشن کا دفاع کرتا نظر آرہا ہے جس کے چیئرمین عثمان مبین کے بقول قومی ادارے کو متنازعہ بنانا ملکی مفاد کیخلاف ہے اور دوسری جانب حکمران جماعت قومی ادارے عدلیہ سے وابستہ الیکشن ٹربیونلوں کے سربراہوں کی کردار کشی کا راستہ اختیار کرکے عدلیہ کے ادارے کیخلاف صف آراءہونے کا تاثر دے رہی ہے تو قومی اداروں میں محاذآرائی کی یہ صورتحال یقیناً جمہوریت کے نقصان پر ہی منتج ہو گی۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی قومی اداروں کے ساتھ محاذآرائی کا پہلے بھی خمیازہ بھگت چکی ہیں جبکہ انصاف و قانون کی ضد انکی من مانیوں کے نتیجہ میں ہی جمہوریت کیخلاف ماورائے آئین اقدامات کا راستہ نکلتا ہے۔ اگر ہماری قومی سیاسی قیادتوں نے اپنی سابقہ غلطیوں کا خمیازہ بھگت کر بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور وہ ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جانے کے عمل کو ہی پسندیدہ سمجھتے ہیں تو پھر انہیں جمہوریت کی بحالی کی صبرآزما اور پہلے سے بھی کٹھن نئی جدوجہد کیلئے ابھی سے تیار ہو جانا چاہیے۔ اگر جمہوریت کو خراب کرکے ہی بحالی جمہوریت کیلئے متحد ہونا ان کا مطمع¿ نظر ہے تو انکے ہاتھوں خراب ہونیوالی جمہوریت سے عوام بھی اب مایوس ہو چکے ہیں۔ ہمارے قومی سیاسی قائدین اپنے طرزعمل سے عوام کو ”میرے عزیز ہم وطنو!“ کا لیبل لگا کر آنیوالوں کا استقبال کرنے کا راستہ کیوں دکھا رہے ہیں؟