بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، مسلمانوں کی اکثریت کی معاشی، سماجی اور تعلیمی حالت تو پسماندگی کا شکار ہے ہی لیکن سرکاری ملازمتوں اور روزگار کے حوالے سے بھی مسلمان انتہائی کسمپرسی کا شکار ہیں۔ بھارت میں مسلمان سب سے بڑی اقلیت کے طور پر رہ رہے ہیں، اس لیے اندرونی و بیرون بھارت مسلمانوں کی اس حالتِ زار کے بارے میں اکثر آواز اُٹھتی رہتی ہے، اِسی طرح کی ایک بلند آہنگ آواز ایک دہائی پہلے اُٹھی تو اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے بھارت میں مسلمانوں کی سماجی، معاشی اور تعلیمی حالت سے متعلق اعدادوشمار اور حقائق جاننے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ یہ کمیٹی دہلی ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس ”راجندر سچار “ کی سربراہی میں تشکیل دی گئی۔ ”سچار کمیٹی“ نے جو رپورٹ مرتب کی، اُس میں ”سیمپل“ کے طور پر ایسے مسلمانوں کو لیا گیا تھا جن کے پاس کالج تک کی تعلیم تھی۔ سچار کمیٹی کی رپورٹ میں بھی تعلیم اور تعلیمی مواقع سے دور کروڑوں مسلمانوں کو شامل ہی نہ کیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود سچار کمیٹی کے اعدادوشمار انتہائی تلخ اور دل دہلادینے والے تھے۔
کمیٹی کی رپورٹ کےمطابق بھارت میں مسلمانوں کی آبادی بیس فیصد کے لگ بھگ بتائی گئی، لیکن سرکاری اداروں بالخصوص فوج میں مسلمانوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر دو فیصد سے بھی کم نکلی، حالانکہ بھارتی اقلیتوں میں سکھوں کی تعداد کل آبادی کا پونے دو فیصد بتائی جاتی ہے لیکن فوج میں سکھوں کا تناسب نو فیصدسے بھی زیادہ ہے،لیکن مسلمانوں کے ساتھ یہ امتیازی سلوک بھارت کی بیس کروڑ پر مشتمل سب سے بڑی اقلیت پر عدم اعتماد کا اظہار نہیں تو اور کیا ہے کہ ساڑھے گیارہ لاکھ بھارتی فوجیوں میں کرنل رینک سے اوپر کا کوئی مسلمان افسر موجود نہیں۔ سچار کمیٹی نے بھارتی فوج میں مسلمانوں کی تعداد بڑھانے کی تجویز دی تو تو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے جواب دیا گیا کہ ”بہتر ہے کہ فوج کو سیکولر ہی رہنے دیا جائے اور کسی خاص مذہب یا عقیدے کے ماننے والوں کی تعداد بڑھانے کی بات نہ کی جائے“۔یعنی جس فوج میں بڑے فخر کے ساتھ گورکھوں، سکھوں، راجپوتوں، مدراسیوں، لداخیوں، ڈوگروں، مراٹھوں اور جاٹوں کی الگ الگ رجمنٹس بنائی جاتی ہیں، اس فوج میں مسلمانوں کیلئے سرے سے کوئی ”گنجائش“ ہی نہیں۔
بھارت میں فوج کے علاوہ دیگر محکموں میں مسلمانوں کا تناسب بالکل ہی نہ ہونے کے برابر ہے، فوج میں مسلمانوں کی موجودگی سے ہی مسلمانوں کی تعلیمی حالت زار اور مسلمانوں کو دستیاب تعلیمی مواقع کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کیونکہ بھارت میں کسی ملازمت کیلئے کم سے کم معیار تعلیم فوج کیلئے ہی رکھا گیا ہے۔ بھارتی فوج میں اب بھی پرائمری پاس شخص فوجی جوان اور میٹرک پاس شخص کمیشنڈ افسر بن سکتا ہے، اگر بھارت میں مسلمان اِس انتہائی کم ترین معیار تعلیم کے باوجود ”کوالیفائی“ نہیں کرپاتے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُن ملازمتوں میں مسلمانوں کا تناسب کیا ہوگا جن کیلئے بنیادی شرط ہی اعلیٰ تعلیم رکھی گئی ہو! ساڑھے گیارہ لاکھ کی حاضر سروس بھارتی فوج میں صرف 29 ہزار مسلمانوں (اور وہ بھی زیادہ تر جوانوں) کی موجودگی مسلمانوں کے ساتھ واضح طور پر امتیازی سلوک ہی تو ہے؟ بھارت کی جانب مسلمانوں پر یہ عدم اعتماد ہی نہیں بلکہ ایک منصوبہ بندی کے تحت باقاعدہ مسلمانوں کو پسماندہ اور تنزلی کا شکار رکھنے کی سوچی سمجھی سازش ہے۔ بھارت کے جنونی انتہاپسند ہندو¿وں(جو بھارت میں ہر شعبے میں حاوی ہیں) کی اِس سازش کو بھانپتے ہوئے بھارت کے اندر اور بھارت کے باہر سے مسلمانوں کی اِس تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کی کوششیں عرصہ دراز سے ہورہی ہیں۔ مسلمانوں کی تعلیمی حالت کو سدھار نے کی کوششوں میں عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب بھی کافی متحرک ہے اور یہ کوششیں قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے بھارتی حکومت کے بھی علم میں ہیں، لیکن بھارتی انتہاپسند طبقے کو مسلمانوں کی حالت باہر سے سدھارنے کی یہ کوشش بھی پسند نہ آئی اور یوں بھارت سعودی عرب کےخلاف بھی کھل کر سامنے آگیا۔ بلیک میل کرنے کیلئے بھارت نے وکی لیکس کو بہانہ بنایا اور سعودی عرب پر سنگین الزامات لگا دئیے، بھارتی میڈیا میں آنےوالی خبروں میں الزام لگایا گیا کہ سعودی عرب بھارت میں اپنا مذہبی و نظریاتی اثر و رسوخ بڑھانے کیلئے کروڑوں روپے کے فنڈز بھارتی مذہبی و غیر سرکاری اداروں کو فراہم کررہا ہے۔ نیوز ویب سائٹ indiatvnews.com کے مطابق وکی لیکس نے ایک دستاویز شائع کی جس میں ان بھارتی اداروں کی فہرست شامل تھی جنہوں نے سعودی عرب سے مالی مدد کیلئے درخواست دی۔ مبینہ سفارتی دستاویزات کے مطابق سعودی عرب کی طرف سے 9 اداروں کو فنڈز کی یقین دہانی کروائی گئی جو اترپردیش، مغربی بنگال، کیرالہ اور مہاراشٹرا سمیت مختلف ریاستوں میں واقع ہیں۔ صرف کیرالہ میں واقع اداروں کو مبینہ طور پر 45 لاکھ سعودی ریال کی یقین دہانی کرائی گئی جبکہ اترپردیش میں ایک مدرسے اور گرلز ووکیشنل سکول کیلئے بھی 75 ہزار ریال کا وعدہ کیا گیا۔ بھارتی میڈیا نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ مکہ میں واقع ادارہ سیکرٹریٹ جنرل آف مسلم ورلڈ لیگ کی طرف سے سعودی حکومت سے درخواست کی گئی کہ اس تنظیم کے سنٹر بھارت میں قائم کئے جائیں۔وکی لیکس نے سعودی عرب کے متعلق 60 ہزار سے زائد سفارتی دستاویزات افشاءکی تھیں اور ان میں سے کچھ دستاویزات کی بناءپر بھارتی میڈیا نے سعودی حکومت پر الزامات کی بوچھاڑ کردی تھی۔ سعودی عرب پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ یہ بھارت میں ایرانی اثر و رسوخ سے پریشان تھا اور اسکے سدباب کیلئے اپنے خصوصی مذہبی نظریے سے اتفاق رکھنے والے بھارتی اداروں کو مالی مدد فراہم کررہا تھا۔اس طرح کے منفی اور بیہودہ رپورٹنگ کے بعد بھارت اور سعودی عرب کے تعلقات مزید سردمہری کا شکار ہوگئے، حالانکہ اِ س سے پہلے شاہ عبداللہ اور اُس وقت کے ولی عہد شاہ سلمان کے بھارت کے دوروں کے بعد دونوں ممالک میں تعلقات فروغ پانے لگے تھے اور سعودی عرب اور بھارت میں دفاعی معاہدہ بھی ہوگیا تھالیکن مسلمانوں کیخلاف اپنی روایتی کینہ پروری اور تعصب کی وجہ سے بھارت کو منہ کی کھانا پڑی۔
بھارت کو مسلمانوں کیخلاف ایک بار پھر اُس وقت منہ کی کھانا پڑی جب بھارت حال ہی میں مسلم ممالک کوپاکستان کیخلاف کرنے میں ناکام ہوا۔ اطلاعات کےمطابق بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے حالیہ دورہ متحدہ عرب امارات کے دوران اماراتی حکام سے کہاکہ عرب ممالک بشمول سعودی عرب اگر دفاعی معاملات پر پاکستان کے ساتھ سرد مہری سے پیش آنا شروع کردیں تو بھارت یمن سمیت تمام دفاعی معاملات میں عرب ممالک سے مکمل تعاون کرےگا لیکن اس حوالے سے سعودی عرب کے فرمانروا خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان نے بھارت پر واضح کردیا کہ سعودی عرب کبھی بھی پاکستان کیخلاف مودی کی سازش کوکامیاب نہیں ہونے دیگا۔یہی نہیں بلکہ سعودی عرب نے پاکستان کی حکومت اور دفاعی حکام کو بھی بھارت کی اِس سازش کے بارے میں باضابطہ طورپرآگاہ کردیااور یقین دلایا کہ سعودی عرب سمیت کوئی عرب ملک پاکستان کےخلاف بھارت کی کسی سازش کا حصہ نہیں بنے گا۔
قارئین کرام!!نومبر 2013ءمیں ”سچار رپورٹ“ کے سامنے آنے کے آٹھ سال بعد اگر کوئی شخص اِس رپورٹ کیخلاف عدالت گیا تو وہ کوئی اور نہیں بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندرا مودی کی شخصیت ہی تھی اور بطور وزیراعلیٰ گجرات یہ مودی کا کوئی پہلا مسلم کش اقدام نہ تھا، بلکہ نریندر مودی کے ہاتھ اس پہلے ہی مسلمانوں کے خون سے براہ راست رنگے ہوئے تھے لیکن اب جو نریندر مودی نے پاکستان اور سعودی عرب کے رشتے کو ”لہو رنگ“ کرنے خواب دیکھا ہے تو مودی کیلئے اس خواب کی تعبیر انتہائی بھیانک ثابت ہوئی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت ابھی تک پاکستان اور پاکستان کے اپنے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو سمجھا ہی نہیں!کوئی ہے جو جنونی مودی کو سمجھائے کہ پاکستان اور سعودی عرب کاتعلق دو ملکوں کا کوئی عام سا سفارتی تعلق نہیں ہے، پاکستان اور سعودی عرب کا تعلق تو دنیا کا سب سے مضبوط اور ناقابل تقسیم و ناقابل تسخیر تعلق ہے! سچار رپورٹ کو نہ ماننے والے بھارتی پگلو! یہ تو ایمان کا رشتہ ہے!