’’…ہم سبق بُودیم در دیوانِ عِشق !‘‘

Aug 27, 2016

اثر چوہان

چار سال پہلے تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن چودھری ظفر اللہ خان سے میری ٹیلی فون پر دوستی شروع ہُوئی۔ وہ میرے کالم میں شامل اردو، پنجابی اور فارسی کے شعروں کی اپنے رنگ میں تفسیر کرتے ہیں ۔ تین دِن پہلے میری لاہور میں اُن کے گھر پانچویں بار ملاقات ہُوئی تو وہاں اُن کے "Family Friend" کرنل (ر) محمد نعیم اللہ خان بھی تھے۔ کرنل صاحب پاکستان کے نامور ماہرِ تعلیم خان محمد رفیع اللہ خان ( مرحوم) کے بیٹے ہیں۔ مَیں گریجویشن کے لئے 1957ء سے 1961ء تک گورنمنٹ کالج سرگودھا میں پڑھتا رہا۔ خان محمد رفیع اللہ خان اُن دِنوں کالج کے وائس پرنسپل تھے۔ 

دو قومی نظریۂ کے علمبردار سرسید احمد خان کے پوتے ڈاکٹر عابد احمد علی کے بعد سُرخ پوش لیڈر خان عبدالغفار خان کے بیٹے (خان عبدالولی خان کے چھوٹے بھائی) خان عبدالعلی خان کالج کے پرنسپل رہے۔ دونوں صاحبان سے بات چیت کے لئے طلبہ کو اردو یا انگریزی میں بات کرنا پڑتی تھی لیکن ہم سب خان محمد رفیع اللہ خان سے پنجابی میں بات کرتے تو وہ کہا کرتے تھے کہ ’’تم لوگ پنجابی کے صُوفی شاعروں کا کلام بھی پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کِیا کرو‘‘۔ خان صاحب ہمیں مولوی اور صوفی کا فرق بھی بتایا کرتے تھے ۔ وہ خود بھی صوفی (درویش) تھے۔
کرنل (ر) محمد نعیم اللہ خان نے مجھے ڈاکٹر عابد احمد علی اور خان عبدالعلی خان کے خادمِ خاص چاچا اللہ دِیا کی یاد دلائی۔ چاچا اللہ دِیا۔ میرے پڑوس میں رہتے تھے۔ میری درخواست پر اُنہوں نے میری پہلی ملاقات ڈاکٹر عابد احمد علی کے گھر کرائی۔ اِس سے پہلے مجھے کالج کے ایک سینئر طالبعلم سید ملازم حسین بخاری نے بتایا تھا کہ ’’ڈاکٹر عابد احمد علی بحیثیت عالمِ دین خاکسار تحریک کے بانی علاّمہ عنایت اللہ خان المشرقی کی بہت عزت کرتے ہیں‘‘۔ مَیں نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ مَیں ایک سال تک علاّمہ مشرقی کی اسلام لیگ میں رہا۔ منٹو پارک لاہور میں خاکساروں کے کیمپ اور کنگن پور کی پاک بھارت سرحد پر بھی رہا ہُوں‘‘۔ ڈاکٹر صاحب حیران ہُوئے۔ اُنہوں نے مجھے بیٹھنے کو کہا اور پوچھا کہ ’’آپ نے علاّمہ مشرقی صاحب کی کوئی کتاب بھی پڑھی ہے؟‘‘۔ مَیں نے کہا کہ ’’جی ہاں! اسلام لیگ کے چودھری محمد نواز مجھے اور میرے ایک دوست کو ہفتے میں دو دِن علاّمہ صاحب کی کتاب ’’حدیث اُلقرآن‘‘ پڑھاتے اور اُس کا مطلب سمجھاتے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے ’’حدیث اُلقرآن‘‘ کے مطابق ’’ ارتقائ‘‘ کا مسئلہ پوچھا مَیں نے بتا دِیا۔ مَیں پاس ہوگیا تھا۔ اُنہوں نے مجھے چائے پلوائی اور کالج میں دوبارہ داخلہ دے دِیا۔ چاچا اللہ دِیا کے ذریعے مَیں اُن سے جب چاہتا اُن کے دفتر یا گھر میں ملاقات کرلِیا کرتا تھا اور اُن سے اپنے کلاس فیلوز کی چھوٹی موٹی درخواستوں پر بھی دستخط کروا لِیا کرتا تھا۔ اِس طرح مَیں اُن میں کافی معتبر ہوگیا تھا۔
17 اکتوبر 1957ء کو وزیراعظم (عوامی لیگ کے سربراہ) سیّد حسین شہید سہروردی صاحب کو کمپنی باغ سرگودھا میں جلسۂ عام سے خطاب کرنا تھا۔ اُس سے پہلے مَیں اور میرے دو کلاس فیلوز میاں جمیل اختر اور تاج اُلدّین حقیقت، کینال ریسٹ ہائوس میں اُن سے مِلے۔ اُنہوں نے ہم تینوں سے ہاتھ ملایا۔ ہم بہت خوش ہُوئے اور اُن کی کار کے پیچھے اپنی اپنی سائیکلیں دوڑاتے ہُوئے جلسۂ گاہ میں پہنچ گئے۔ وزیراعظم خطاب کررہے تھے کہ اچانک اُنہیں صدرِ پاکستان سکندرمرزا کا ٹیلی گرام مِلا۔ وزیراعظم نے وہ ٹیلی گرام پڑھ کر حاضرین کو سُنایا۔ لِکھا تھا کہ ’’سہروردی صاحب! آپ کو وزارتِ عظمیٰ سے برطرف کردِیا گیا ہے‘‘۔ جلسۂ گاہ میں سکندر مرزا مُردہ باد کے نعرے گونجنے لگے۔ ہم تینوں دوستوں نے بھی مردہ باد کے نعرے لگائے۔
پرنسپل ڈاکٹر عابد احمد علی اور اُن کے بعد پرنسپل خان عبدالعلی خان طلبہ کی سیاسی تربیت بھی کِیا کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ’’جب قومی سطح کا کوئی لیڈر سرگودھا آئے تو آپ اُس کے جلسے میں شرکت ضرور کریں لیکن شور شرابا ہر گز نہ کریں ‘‘۔ خان عبدالعلی خان مجھ پر اور میرے دوستوں مفتی محمد طفیل گوئندی، میاں جمیل اختر اور تاج اُلدّین حقیقتؔ پر بہت شفقت کِیا کرتے تھے اور ہمیں پیار سے ’’خُورُسکو‘‘ کہا کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’پشتو زبان میں ’’خُورُسکو‘‘ اُس شخص کو کہتے ہیں جو کھائے پئے بہت اور کام وام کچھ نہ کرے!‘‘۔
1960ء میں ہم بی۔ اے فائنل میں تھے ۔ جب ہم نے کام دِکھا دِیا۔ راولپنڈی سے حکومتِ پاکستان کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر "Mr. F.D. Duglas" سرگودھا آئے۔ مفتی محمد طفیل گوئندی، میاں جمیل اختر، تاج اُلدّین حقیقتؔ اور مَیں نے اُن سے چھیڑ خانی کی ۔ اگلے روز ڈی آئی جی پولیس (ہماری موجودگی میں) پرنسپل صاحب کے دفتر آیا اور کہا کہ ’’مَیں اِن چاروں طلبہ کو گرفتار کرنا چاہتا ہُوں ‘‘۔ پرنسپل صاحب نے کہا کہ ’’مسٹر ڈی آئی جی! اگر تم اِنہیں پکڑو گے تو مَیں بھی تمہیں پکڑ لوں گا ‘‘۔ ڈی آئی جی جانتا تھا کہ پرنسپل صاحب کی گورنر نواب امیر محمد خان سے گہری دوستی ہے۔ وہ بھاگ گیا۔ مفتی محمد طفیل گوئندی اور میاں جمیل اختر لاہور ہائی کورٹ کے سینئر وکلاء اور تاج اُلدّین حقیقتؔ روزنامہ ’’ امروز‘‘ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر رہے۔ میرے یہ تینوں دوست اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔کرنل ( ر) محمد نعیم اللہ خان کو اُن تینوں اور میری ’’حرکات و سکنات‘‘ سے پوری واقفیت تھی۔
2007ء میں کرنل (ر) نعیم اللہ خان اور اُن کی اہلیہ حج کے لئے مکہ معظمہ میں تھے۔ چودھری ظفر اللہ خان کی بیٹی ڈاکٹر نورین ظفر اور نواسے محمد عبداللہ ظفر کی اُن سے ملاقات ہُوئی۔ ڈاکٹر نورین ظفر صاحبہ نے "Tour Operator" سے اُن کا کوئی مسئلہ حل کرادِیا۔ پھر وہ چودھری ظفر اللہ خان کے "Family Friend" بن گئے اور اُن کے طفیل میری بھی کرنل صاحب سے تجدید ِتعلقات ہوگئی۔ ’’جِیوندے رہے تو مِلا ںگے لکّھ واری!‘‘ کرنل (ر) محمد نعیم اللہ خان کا بڑا بیٹا محمد عمر خان لاہور میں بینکر ہے اور چھوٹا بیٹا احمد علی خان آسڑیلیا میں پاکستان کے ہائی کمِشن میں اعلیٰ عہدے پر ہے۔ اُن کی بیٹی ایک پاکستانی کرنل سے شادی کر کے آسڑیلیا چلی گئی ہے۔ کرنل صاحب نے مجھے پروفیسر شاعر جناب خلیل بد ایونی ( مرحوم) کی یاد دلائی۔ بدایونی صاحب اپنے گھر میں مخصوص شعری نشستیں منعقد کِیا کرتے تھے ۔
مَیں خان عبدالعلی خان کی مِنت سماجت کر کے اُنہیں مہمان خصوصی کے طور پر بدایونی کے گھر منعقدہ شعری نشست میں لے جایا کرتا تھا۔ چنانچہ بدایونی صاحب مجھے بھی اپنا کلام سُنانے کا موقع دے دِیا کرتے تھے۔ پھر مفتی محمد طفیل گوئندی، میاں جمیل اختر، تاج اُلدّین حقیقتؔ اور مجھے لاہور اور لائل پور کے غیر معروف مہمان شاعروں کی ’’مالی امداد‘‘ کے بہانے خان صاحب سے ’’ ٹھگی‘‘ کرنے کا موقع مِلتا رہا۔ خان صاحب بھی جانتے بوجھتے یہ ’’ٹھگی‘‘ کرانے کے عادی ہو چکے تھے۔ تین دِن سے اپنے تینوں کلاس فیلوز (دوستوں) کے بارے میں فارسی کا یہ مِصرع یاد آ رہا ہے کہ…؎
’’ ماو مجنُوں، ہم سبق بُودیم، در دیوانِ عشق‘‘
یعنی مَیں اور مجنوں دیوانِ عشق ( گورنمنٹ کالج سرگودھا) میں ہم سبق تھے۔

مزیدخبریں