سخنوروں کی ضیاءتم تھے آفتاب ضیائ
کبھی یہ ہم نہ بھلائیں گے آفتاب ضیائ
تمہاری یاد دلوں میں رہے ترو تازہ
ہم ان پہ نقش بنائیں گے آفتاب ضیائ
ترے وصال کا سن کر یہ دل کا حال ہوا
کہ جیسے اپنے کسی خاص کا وصال ہوا
خبر یہ سن کے بھی دل کو یقیں نہیں آیا
سنا کہ سچ ہے تو ہر شخص کو ملال ہوا
ہمارا دوست خلوص و وفا کا پیکر تھا
بلند حوصلے اور عزم کا سمندر تھا
ملا کسی سے تو اپنا بنا لیا اس کو
نہ جانے کونسا نایاب اس میں جوہر تھا
وہ نرم گرم چشیدہ تھا دیدہ وا بھی تھا
اور اس کے ساتھ وہ اک شخص بے ریا بھی تھا
محبتوں کا ذخیرہ تھا اس کے پاس بہت
کہ سب کو بانٹ کے باقی بچا ہوا بھی تھا
ضیائے بزم سخن‘ افتخار علم و ادب
ہماری بزم کی رعنائیاں تھیں تیرے سبب
ترے بلاوے پہ سجتیں تھیں محلفیں ساری
تری اذاں سے ہی ہوتا تھا چاک دامن شب
مری دعا ہے کہ جنت مقام ہو تیرا
کہ مستحق اسی کے تم تھے آفتاب ضیائ
تمہاری یاد دلوں میں رہے ترو تازہ
ہم ان پہ نقش بنائیں گے آفتاب ضیائ
سخنوروں کی ضیاءتم تھے آفتاب ضیائ
کبھی یہ ہم نہ بھلائیں گے آفتاب ضیائ
(رشید امین‘ اسلام آباد)
تو چاند تھا تیرے ستارے تھے بہت
لوگ تیرے پاس آئے ، پیارے تھے بہت
ہر لمحہ ، ہر گھڑی مُسکراتا تھا تو
الفاظ تیرے ایسے کہ گہرے تھے بہت
کہتا تھا تو کہ آو¿ میرے پاس
مشاعرے تیرے ایسے سنہرے تھے بہت
ہر صبح تیری یاد آتی تھی مجھے
ہر لفظ میں تیرے ، اشارے تھے بہت
پتہ نہ تھا جا رہا ہے تو
جاناں ! احباب کو تیرے سہارے تھے بہت
(سعید بخاری، چکوال)