عمران خان ، کرسی اوراعلیٰ چٹکی۔۔؟

عمران احمد نیازی صاحب نے قومی اسمبلی میں اکثریتی ووٹ حاصل کرنے کے بعد اس باوقار اسمبلی کے جلاس میں اپنے اولین خطاب میں ایسے انداز اور رنگ میں خطاب فرمایا کہ ملک بھر میں مختلف حلقوں اور عوام و خاص میں چہ میگیوئیاں اور تبصروں کا آگاز ہوگیا۔ کہنے والوں کا کہنا یہ ہے کہ اس دن بھی عمران احمد نیازی کا انداز پُرانا خان والا اور دھرنے ، کنٹینر والا ہی تھا۔ غصہ ، چیخنے اور دھمکیوں والا لب و لہجہ بلکہ ایسا لگ رہا تھا کہ کچھ ہوگیا ہے یا کچھ ہونے والا ہے ۔ یا کچھ ہونے کو چلا گیا جو رک گیا، یا ٹھہر گیا۔۔؟
سیاسی حلقوں کے نزدیک اس دن عمران احمد نیازی صاحب کو اپنی تقریر میں ، اہم ترین منصب پر قائز ہونے والی شخصیت کا اعلیٰ تاثر اور پیغام عوام اور بین الاقوامی سطح پر دینا چاہیے تھا۔ جس میں ٹھہر ائو ، نرمی، شائستگی، اعتماد اور قائد ایوان و وزیر اعظم کا پرُ وقار انداز پر مبنی اہم پیغام دینا تھاجوکہ ضروری تھا ہواا س کے برخلاف۔
اس موقع پر اس تاریخی دن جوکہ PTI اور خان صاحب کے لئے بہت اہم اور خواہش عظیم کا ’’پورا ہونے کا یوم خاص‘‘ تھا اس دن چیخنا اور برسنا کیوں اور کس لئے اور خراب لب و لہجہ اورمنفی انداز میں کسی NRO (این آر او) کی دھجیاں اُڑانے کا اعلان آخر کیا معنی رکھتا ہے۔۔۔؟ لگتا ہے کہ اور باخبر ذرائع کے مطابق کوئی خطرہ تھا جوکہ تھم گیا۔ جو روکوایا گیا۔ ۔۔ اور جوٹل گیا۔۔؟ جبکہ جاننے والے جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کپتان بڑے مضبوط اعصاب کا مالک ہے جس نے کرکٹ میچوں میں کئی مشکل اور خوفناک حالات سے آلودہ میچز میں ڈٹ کر اور مضبوطی کے ساتھ صورتحال کا سامنا اور مقابلہ کیا۔
اس بات پر کسی خاص نے مسکراتے ہوئے سرکو اٹھایا اور کہا کہ میرے پیارے دوست کل وہ کرکٹ کا میدان تھا اور آج یہ سیاست کا میدان ہے۔ جو کرکٹ سے مختلف ، یہ میدان جہاں حسین و خوبصورت اور دھنک رنگ ہے اور ساتھ ہی اس کا روپ سفاک و خوفناک اور بدرنگ ، بے رحم اور اپنی خواہشات، ذات اور اپنے مفادات کو ہر قیمت پر بچانے ، قائم رکھنے اور آگے رکھنے کا سب سے اہم ترین نکتہ اور آج کی سیاست کا نام اور کام ہے ۔ ’’سیاست اور عبادت ‘‘کب اور کس چڑیا کا نام ہے آج کسی کو کچھ نہیں پتہ۔۔۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اس مرد صحافی نے مزید کہا کہ دیکھو بھائی یہ کیسی زیادتی اور تکلیف دینے ’’یا باریک چٹکی‘‘لینے والی حرکت تھی کہ نیازی صاحب نے ابھی تو وزیر اعظم کا حلف اٹھا کر وزارت عظمی کے سنگھا سن (کرسی) پر جلوہ افروز ہو کر اس کا خوبصورت اور روح کا معطر کرنے والا لمئس بھی حاصل نہ کیا تھا کہ یہ ’’چٹکی‘‘ اور کڑک دار بجلی چمک اٹھی۔۔ آخر کیوں۔۔۔؟ آخر نیازی صاحب بھی تو خاک کا ایک جیتا جاگتا پیکر اور احساسات سے مزئین انسان ہے بُرا بھی لگے گا اور غصہ بھی آئے گا۔ یہ انسانی فطرت کے عین قریب ہے ۔ فی الحال یہ خاص تقریر ہوچکی، وہ وقت گذر چکا ۔ اب نہ وہ ڈرہے نہ ویسی صورتحال ہے، نہ لمحات ہیں۔ خاموشی اور گہری خاموشی سی قائم ہوچکی ہے کب تک کچھ نہیں پتہ۔۔۔؟ شاید نیازی صاحب نے کوئی خواب دیکھا تھا جس کو وہ اپنے اول خطاب میں ہی فرماگئے۔ اپنے اور پرائے کیا سوچ رہے ہیں جلد ہی ظاہر ہوگا ۔ بند مٹھی کھلے گی اور ریت بھی گرے گی ۔ فی الحال اس وقت سمندر میں ٹھہر ائو اور لہریں ہموار اور بے آواز ہیں۔ رات کی تاریکی میں چاند کی چمکتی اور اُجلی روشنی میں کچھ دکھائی دے جائے تو یہ رب کا ئنات کی مرضی۔
بات ہورہی تھی کسی NRO ، ڈاکو، چور کی اور یہ کہ میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا اور نہ ہی کوئی NRO ہوگا اور یہ عمران احمد نیازی کے لبوں سے ادا ہوئے اور اسمبلی کے ایوان میں گونج کر ارض وطن کی فضائوں میں پھیل گئے۔ ملکی تمام حلقے وہ سیاسی ہو یا صحافتی، ادبی، تجارتی، قانونی، عدالتی، انتظامی ، سرکاری و نیم سرکاری ، ادارے اور اہل وطن، سب بخوبی واقف اور جانتے ہیں کہ پُرانا کھلاڑی ، دھرنا کپتان اور آج کے نئے منتخب وزیر اعظم دھاندلی کے الزام کے باوجود عمران احمد خان نیازی صرف اور صرف پاکستان بھر میں ڈاکو اور چور جس کو کہتے ہیں وہ شخص یا ہستی ایک ہی ہے ۔ اور وہ ہے محمد نواز شریف ماضی میں 3 مرتبہ کا عوام کے ووٹوں سے ، دوتہائی اکثریت سے منتخب ہونے والا وزیر اعظم پاکستان جو آج اڈیالہ جیل میں اپنی بیٹی مریم نواز شریف کے ہمراہ پس زنداں ہے۔ ’’آن لائن‘‘ اور جیل ذرائع کے مطابق انہوں نے قید خانے میں ہی پاکستان کی آزادی کے دن کا کیک قیدیوں کے ہمراہ کاٹ کر منایا اور اہل وطن کو مبارکباد دی اور یہ کہ وہ پر اعتماد دکھائی دیئے۔
آج کی پاکستانی قوم ماشاء اللہ سیاسی اور جمہوری اور سیاستدانوں کے طور طریقوں، انداز گفتگو، آداب کیئریئر، آداب سڑک و سیاسی مجمعے، اور انداز سیاسی دھرنے، انداز اپوزیشن اور انداز اقتدار و لب و لہجہ کو خوب سمجھتی اور جانتی ہے بلکہ ذہنوں کو بھی پڑھ سکنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے ۔ وہ جانتی ہے کہ اپوزیشن کی سیاست کتنی آسان اور مکھن زدہ اور دھواں دھار ہوتی ہے تو اقتدار و حکومت کا دور آسان نہیں ہوتا بہت کچھ اور انداز اور لہجے بدل جاتے ہیں۔ دل نہ چاہتے تو بھی دل کو مارنا اور انداز کو بدلنا پڑتا ہے کیونکہ اب نیازی صاحب کا موسم اقتدار ہے ۔ نہ کہ موسم اپوزیشن، نہ دھرنے نہ کنٹینر اور دھمکیوں اور بڑھکوں کا زمانہ وہ وقت ہوا ‘ ہوا آج جیسے تیسے بھی، کسی بھی طرح 22کروڑ عوام اور عظیم مملکت خداداد ایٹمی مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دیکھ بحال اور خدمت کی ذمہ داری آپ کو حاصل ہوچکی ہے کیوں اور کیسے ملی ایسا اب ہم نہیں بولیں گے کیونکہ آپ ابھی اقتدار کے ایوانوں میں نئے اور ناتجربہ کار ہیں آپ کا حق ہے کہ آپ اپنے وعدے، دعوئے، منشور کو عملی شکل دینے کے لئے اپنی اور اپنی ناتجربہ کار ٹیم اور غیر لوگوں کے ساتھ مل کر کوشش اور محنت کرکے عملی طور پر خدمت کو اُجاگر کرکے عوام کا اعتماد کا ووٹ حاصل کریں ۔ آپ کے بقول پہلا مرحلہ خدمت کا سو دن (۱۰۰دن ) آپ کو مبارک ۔
عمران خان نیازی کی پریشانی کا یہ عالم ہے کہ کابینہ کے پہلے اجلاس میں کچھ ہونے کے ڈر سے نواز شریف، مریم نواز اور صفدر کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا فوری اعلان کردیا۔ لگتا ہے کچھ تبدیلی تو نہیں آنے والی۔۔۔؟؟

ای پیپر دی نیشن